آزادی کی قدر کریں، آزادی کے محافظوں کا ساتھ دیں!!!!!! (قسط نمبر2)


مولانا عبد ا للہ سکنہ 'دْگری'( کی راہبری میں موضع 'سنانا' کی پہاڑیوں میں معرکہ: پھر ہر روز صبح سے سکھ نیزے اور برچھے لے کر آنے شروع ہو جاتے اور مستو کے گنبد سے لیکرسنانے تک بفاصلہ دو میل جو کہ اونچی کوہ شوالک کی دھار ہے ،اس پر آکر کھڑے ہو جاتے اور شام کو واپس ہو جا تے۔ نہیںمعلوم وہ ہماری راکھی کے واسطے آتے ، اور افسروں کے پاس شکایت بھی کیاکرتے کہ قافلہ نامعلوم کس طرف کو اٹھے اور تہہ و بالا کردے۔ چنانچہ ہماری نگرانی پر فوجی لگائے جاتے تھے اور ہم لوگوں نے بھی اپنے پہرے اونچے اونچے پہاڑوں پر لگا رکھے تھے۔ اناج وغیرہ کی کمی تھی۔ ہمارا خیمہ چودھری مولا بخش آف 'چرڑیاں ' ) بھائی احمدین کی پہلی بیوی عائشہ کے والد کا نام اور گاؤں کا نام( کے خیمہ کے پاس تھا اور گاؤں والے الگ تھے۔خیر اللہ کا احسان تھا کہ بارش خوب ہوئی تھی اور 'چو'/ندی میں پانی تھا۔ افسران نے بھی تاڑا کہ یہ لوگ بغیر اٹھائے نہیں اٹھیں گے۔ چنانچہ تمام دْور و نزدیک کے سکھ لوگ بلائے گئے اور حملے کا دن مقرر کیا گیا اور صبح سے سکھ لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس طرح جیسے کہ دکھن کی جانب سے گھٹا اٹھ رہی ہو۔ جب دن نے دس بجائے اور ادھر سے فائر ہونا شروع ہوئے۔ ادھر سے بھی مسلمانوں نے 'پرے کے پرے' جمائے اور مختلف مقاموں پر سامنے جا کھڑے ہوئے۔ اْدھر تو ایک تختہ بنا ہوا تھا اور سامنے ہر ایک کو نظر آ رہا تھا۔ ہمارے پاس بھی ایک پستول اور دو بندوقیں تھیں، مگران لوگوں کے پاس پکی رائفلیں تھیں۔ ان لوگوں نے بڑھنا شروع کیا۔ پہلا حملہ ان لوگوں نے 'لاڈہل' گاؤں کی جانب سے کیا جن کے مقابلے میں ایک معمولی دستہ تھا۔خیر اْدھر سے فائر شروع ہوا۔ ادھر سے بھی ایک آدھ فائر ہوا۔مگر مسلمانوں نے ناچار ہو کر 'پتھر'جو قدرتی ہتھیار تھا 'برسانے شروع کئے اور بڑے زورشورسے اور غصہ میں آکر بر سانے لگے۔ خدا کی حکمت وہ لوگ مقابلے میں تاب نہ لا سکے۔ چْونگی مانگی ہوئی فوج جان پر نہیں کھیلا کرتی ، پھر چمار چْوہڑے ! دْم دبا کر بھاگے اور واپس 'مستو کے گنبد' سے ہو کر اس لمبی فوج میں شامل ہوگئے اور پھر دوبارہ ایک زبردست حملہ شروع کیا۔ مگروہی پتھربازی شروع ہوئی۔ مولانا عبد ا للہ صاحب دْگری والے ، مگر عمر کے بہت چھوٹے تھے) قافلے کے امیر تھے (اور بڑی بہادری سے فرنٹ پر جا یا کرتے تھے۔ خیر، نیزہ بازی اور پتھر بازی نے ان لوگوں پر ہیبت جما دی اور بھا گڑ پڑ گئی۔ ان لوگوں نے )یعنی مسلمانوں نے( تعاقب کیا اور اْن کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ ہمارے بھی دو تین آدمی شہید ہوئے اور تین چار کے قریب زخمی ہوئے۔ غرضیکہ ہندو اور سکھ بری طرح پچھاڑے گئے۔جب ہم لوگوں نے فتحیابی سنی تو اسی وقت سر بسجود ہو گئے اور اللہ اکبر کے نعروں سے جنگل گونج اٹھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ جس وقت سکھ لوگ سامنے 'دھار' پر آکر کھڑے ہوتے تھے یا کوئی قافلہ میں ان کے ' دھار' پر آنے پر آوازیں ہوتی تھیں تو عورتوں اور بچوں کے دل دہل جاتے تھے۔ چاروں طر ف سے ہائے ہائے کی آواز آتی تھی۔) نوٹ: مولانا عبد ا للہ انچارج تھے اور تمام جوانوں کو اکٹھا کرکے اگلی لائن میں لے جا یا کرتے تھے ، اس مقصد کے لئے وہ بعض دفعہ ٹینٹوں کے اندر بھی جھانکا کرتے تھے (۔ کورالی کنسنٹریشن کیمپ میں منتقل ہونے کا فیصلہ: آخر کار اب وقت کاٹنا مشکل ہو گیا اور حکومت نے بھی یہ تہیہ کر لیا کہ جب تک کوئی فوجی دستہ پٹیالہ وغیرہ سے آکر ان لوگوں پر گولی نہیں بر ساتا تب تک یہ لوگ درست نہیں ہوتے ، چنانچہ دوسرے روز ہم لوگوں نے یہ مشورہ کر کے فوجی افسروں سے اپنی شکایت کردی کہ اب ہم لوگ یہاں نہیں ٹھہریں گے۔ آپ لوگ اگر وعدہ کرتے ہو تو ہمارے سے گھوڑیاں لے لو اور نقد روپیہ بھی لو مگر ہم کو منزل مقصود پر بخیریت پہنچا دو )یعنی گورنمنٹ کے قائم کردہ کنسنٹریشن کیمپ اور جس کا نام 'کورالی کیمپ'تھا ، پہنچا دو۔ 'کورالی' بھی ایک قصبہ کا نام تھا(۔ چنانچہ ایک بڑا فوجی'جھولہ' روپوں کا بھر کر دیا۔ خدا معلوم کتنے روپے تھے۔چونکہ مولوی صاحب کے پاس لوگوں نے بہت سا روپیہ جمع کر دیا تھا۔ اور زیورات بھی کافی تھے۔ چنانچہ فوجیوں نے یہ وعدہ کیا کہ 'دہرم' سے ہم لوگ تم کو بخیریت پہنچا دیں گے۔ چنانچہ کل تم لوگ تیار رہو۔) نوٹ: 'دہرم' سے کا مطلب ہے کہ 'ایمان کی قسم' ( قافلے میں منادی:ہم لوگوں نے تمام قافلہ میں منادی کرا دی۔ بارش زوروں پر تھی۔ دوسرے دن صبح ہی اٹھے اور روٹیاں پکوائیں، جتنا سامان اٹھا سکتے تھے اٹھایا اور چل پڑے۔ میں نے بہت ہی پکار کری کہ آگے رہنا کسی نے کہا نہ مانا۔ 'چوئے' ندی میں تمام قافلہ تھہرا لیا گیا۔ کہتے تو یوں تھے کہ تم کو آج بخیریت کورالی کیمپ میں پہنچا دیں گے مگر جونہی تلاشیاں ہونے لگیں فوجیوں نے فورا" ہی تیور بدل لئے اور جس کسی کے پاس روپیہ پیسہ بٹوے میں تھا سب کچھ چھیننے لگ گئے۔ چنانچہ میرا بھی تمام سامان پھولا۔ مگر کچھ نہیں لیا۔ آخر چل پڑے۔تھوڑی دور جا کر پھر ٹھہرا دئے۔ راستے میں سپاہی لوگوں کی جیبوں کو ٹٹولنے لگے۔ جس کسی کے پاس پیسہ پائی ملا وہ حتی ا لمقدور نہیں چھوڑا۔ میرے پاس بھی خاصی رقم 'اوور کوٹ 'گرم کے کالروں میں سی رکھی تھی۔ اچھے اچھے کپڑے ہم لوگوں نے گٹھڑیوں میں باندھ لئے تھے تا کہ یہ لوگ امیر خیال کر کے ْلوٹنے نہ لگ جا ویں۔ تمام زیورات و رقم محفوظ کر کے گٹھڑیوں میں باندھ لی اور مبلغ 38' روپے گھر والی کے کھیسے میں تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دراصل یہ ستر یعنی 70' روپے تھے۔ میرے سر پرپگڑی باندھی گئی تھی اور اس کے اوپر پکی ہوئی روٹیاں رکھی گئی تھیںتا کہ راستے میں یا منزل پر پہنچ کر کھائی جائیں۔ ہاتھ میں سلور کا خالی جگ دیدیا گیا تھا۔ والدہ نے یہ ستر روپے اس جگ میں رکھ دئے تھے تا کہ اگر کوئی تلاشی لے تو بتا دیا جا ئے کہ ہمارے پاس تو یہی روپے ہیں۔ جب حملہ ہوا تو بھاگتے بھاگتے روٹیاں تو مجھ سے گر گئیں لیکن جگ کو پھینکنے سے پہلے میں نے یہ روپے نکال لئے اور کیمپ میں آکر یا راستہ میں ہی والدہ کو دیدیئے۔ ہماری صرف یہی ایک چیز پاکستان تک ہمارے پاس آئی تھی۔اس کے علاوہ کوئی کپڑا یا رقم نہ آئی تھی۔یا پھر وہ برتن آ ئے تھے جو بھائی احمد دین نے بھاگتے بھاگتے اٹھائے تو اس لئے تھے کہ شاید اس بوری میں کتنے سونا چاندی کے زیورات ہونگے لیکن کیمپ میں آکر جب اسے کھولا تو اس میں سے 'تھا لیاں' ، چمچے، سلور کے گلاس، دیگچی اور روٹیاں بنانے کے لئے چولہے پر رکھنے کا ' توا ' وغیرہ نکلے اور یہ کیمپ میں آکر منوں دولت سے بھی زیادہ کام آئے۔قافلہ پر چارحملے، جن میں سے چوتھا ناکام اور لوگوں کا قتل عام۔ قافلے پر پہلا حملہ: قافلہ میلوں لمبا ہو گیا تھا اور سپاہی لوگ ڈراتے دھمکاتے اور نقدی اور زیورات چھینتے جا رہے تھے جب کہ قافلہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ان میں کچھ جاٹ ملٹری کے آدمی تھے۔جب روپڑ کے نزدیک گئے تو تمام ملٹری کے آدمی ادھر اْدھرغائب ہو گئے۔ دل میں خوف پیدا ہوا۔ جب 'کوٹلہ' سے اگلی طرف ندّی میں گئے تو پچھلی طرف سے سکھوں نے حملہ بول دیا) گاؤں کا نام۔ اسے کوٹلہ نہنگ بھی کہتے تھے اور عام دوسرے گاؤں سے قدرے بڑا تھا (۔چونکہ میں اگلی طرف تھا اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آگے سے قافلہ روک دیا گیا۔ اور ملٹری والے اونچے فائر یعنی 'پھوکے فائر' کرنے لگ گئے۔ مگر ایسا حملہ ہوا کہ سینکڑوں پر ہاتھ صاف کر دیا )یعنی سینکڑوں کو قتل کردیا گیا (۔ اور بہت سی عورتیں بھگا کر لے گئے۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارَ ادھر اْدھر بھاگ کر فصلوں میں چْھپ گئے۔ کئی ایک نے نہر میں جا کر چھلانگ ماری۔قافلے پر دوسرا حملہ ناکام بنا دیا :بہت دیر کے بعد قافلہ چلا۔ جب سنگھ ) سنگھ پورہ گاؤں کا نام ( کے پاس آئے تو وہاں سے دیکھا کہ سکھ لوگ' ڈھا ٹے' لگائے اور نیزے نیچے کئے ہوئے چپکے چپکے گاؤں میں سے بھونڈوں کی طرح آ رہے ہیں۔ مگر کسی مہربان ملٹری والے نے گولی چلائی۔ ممکن ہے کسی کو لگی ہو۔ تب وہ لوگ واپس ہو گئے۔ ورنہ مجھے سیدھے آ رہے تھے۔ قافلے پر تیسرا حملہ اور قتل عام:حاصل کلام یہ کہ جب 'چکلاں' ) گاؤں کا نام ( سے ذرا اگلی طرف پہنچے تو بڑے زور کا حملہ کیا گیا اور بہت لوگ مار دئے گئے۔ میرا کوٹ چار پانچ عورتوں نے پکڑ رکھا تھا اور پیچھے سے چھم چھم نیزہ تلوار برستی آ رہی تھی۔ایسے کاٹ رہے تھے جیسے درخت پر کلہاڑا چلا یا جا تا ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں سْوٹ کیس تھا جس میں چند چیزیں احمد دین کے شوق کی رکھی تھیں۔ دوسرے ہاتھ کی انگلی برخورداری کلثوم دختر بر کت کے ہاتھ میں تھی اور بھاگڑ پڑی ہوئی تھی (۔اس کی عمر تقریباً چار پانچ سال ہو گی۔ اس کا پاؤں بھی دیر سے دْکھ رہا تھا مگر اسی طرح دوڑی دوڑی چلی آ رہی تھی۔ جب میں تنگ آ گیا تو میں اس لڑکی کے ایک کھدان میں جو پانی سے بھرا پڑا تھا گر گیا اور سب سے کوٹ چْھوٹ گیا۔ لڑکی سے بھی انگلی چْھوٹ گئی۔ اور ادھر مریم بھی گر گئی جس پر سے دنیا گذری جا رہی تھی۔ ہر ایک کو جان کے لا لے پڑ ے ہوئے تھے اور بھاگے جا رہے تھے۔ برخوردار ی عائشہ) نوٹ: بھائی احمد دین کی پہلی بیوی۔ ( کے پاس برکت کا لڑکا نصیر ا لدین تھا۔ سنا ہے کہ جب اس کو ایک سکھ نے سڑک سے باہر نکالنا چاہا تو اس نے اسمٰعیل مکوڑی والے ) یعنی میرے بچوں کے ماموں ( کے پاس لڑکا )یعنی نصیر( پکڑا دیا اور اس نے) یعنی اسماعیل نے( زِیورات اور نوٹوں سے بھری اپنی گٹھڑی پھینک دی اور لڑکا اٹھا لیا۔ )نوٹ: عائشہ نے ماموں اسمٰعیل کو وارننگ دی کہ اگر اس نے نصیر کو نہ لیا تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے اسے پھینک دے گی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک سکھ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے پھینکنے کی کوشش کی تھی۔ ماموں اسمٰعیل کے یہ بتانے پر کہ تمام قیمتی اشیاء اور زیورات اسی بنڈل میں ہیں وہ اسے نہیں پھینک سکتا عائشہ نے کہا یا تو ان اشیاء کو ہی بچا لو یا نصیر کو چونکہ وہ نصیر کو نہیں سنبھال سکتی اور اسے وہ زمین پر پھینک دے گی یا اس سے وہ گر جا ئیگا۔ اس پر ماموں اسمٰعیل نے بنڈل پھینک کر نصیر کو لے لیا اور عائشہ بھاگ کر قافلے میں گم ہو گئی۔ لیکن جلد ہی اسے بھائی سراج مل گیا اور پھر عائشہ نے اپنا دوپٹہ ایک طرف سے اپنے ہاتھ کے ساتھ باندھ لیا اور دوسری طر ف سے بھائی سراج کے ہاتھ سے باندھ دیا تا کہ کم از کم یہ دونوں تو جدا نہ ہوں۔ اقبال (۔عا ئشہ نے ہمت کی اور اگلی سائیڈ پر ہو گئی۔۔ غر ضیکہ احمد دین الگ ، عائشہ الگ، مریم، اقبال یعنی ادریس، کلثوم الگ۔ برکت ، میں اور سراج ، غرضیکہ گھر کے سب افراد الگ ہو چکے تھے۔ بھاگتے بھاگتے 'بن ماجرہ' کی ندی پر پہنچ گئے۔وہاں قافلہ رْک گیا۔ یہ حملہ بہت زبردست تھا۔ ہزاروں جانیں تلف ہو گئیں۔ جتنے اچھے اچھے لوگ تھے سب پہچان پہچان کر مارے گئے۔ کسی کے کان میں نیزہ، کسی کی گردن میں اور کسی کے پیٹ میں۔ غرضیکہ ایسی بے دردی سے کام کیا گیا کہ جس کی امید نہ تھی۔
 آگے ندی چڑھی ہوئی تھی اور مجھے اپنے گھر کا ایک جی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اب وقت لٹا بیٹھا۔ دل گھٹا جا رہا تھا، بلکہ کمر سے نیچے ٹانگیں بے حس ہوتی جا رہی تھیں۔ پاگلوں کی طرح پوچھ رہا تھا۔ اور وہ جمعدار سکھ جس کو رشوت کا جھولہ بھر کر دیا تھا اور گھوڑی بھی نذر کردی تھی ، گھوڑی دوڑائے چلا آ رہا تھا۔ میں نے روک کر کہا کہ ظالم یہی ایمانداری کا ثبوت تھا جو تم لوگوں نے دیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں سب کچھ اس حملے میں دے بیٹھا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میرے ہمراہ چلو جہاں تمہارا نقصان ہوا ہے پہچانو۔ میں نے سوچا کہ اب 
صرف میری ہی جان باقی ہے یہ بھی جاتی رہے گی۔ مگر پیچھے سے کسی نے آواز دی "منشی جی ، منشی جی ، آپ کی فیملی، بچوں سمیت ندی کے کنارے میں دیکھا ہے اور پھر برکت، بسّے مجھے مل گئیں۔ احمد دین بھی ایک دفعہ دکھائی دیکر غائب ہو گیا۔ لیکن برکت، بسّے) ہماری ایک چچی کا نام بسّے تھا( بمع اپنے بچوں کے میرے ہمراہ رہیں۔ چوتھا حملہ نا کام: قافلہ چل پڑا۔جب 'بن ماجرہ'کے برابر پہنچے تو پھر دیکھاکہ سینکڑوں کی تعداد میں حملہ آور گاؤں سے ہتھیار لئے آ رہے ہیں۔ پھر تو دل میں جچ گئی کہ اب یہاں سے جا نا مشکل ہے۔حملہ ہوا ہی چاہتا تھا کہ سامنے سڑک پر ایک ٹرک میں سے گولی سیدھی 'جتھے' پر گری جو ایک آدمی کو جا کر لگی اور وہ چت ہو گیا۔ دوسری پھر ، وہ بھی لگی۔ آگے سے گولی کا چلنا تھا کہ جتھا واپس دْم دبا کر بھاگا۔ پتہ چلا کہ جو موٹر مریضوں کی پہلے 'کورالی' پہنچ گئی تھی ان لوگوں نے جا کر وا ویلا شروع کر دیا تو زایک عیسائی )یعنی سفید فام یورپین( افسر کے کان میں آواز پڑِ ی۔ یہ افسر کسی اور طرف جا رہا تھا لیکن یہ بات سن کر وہ سیدھا 'بن ماجرہ' کی طرف ہو لیا اور آتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔)نوٹ: اسی جیپ میں یوروپین رنگ کی نرسوں کے لباس میں ایک خاتون بھی تھی۔ یہ دونوں جیپ سے نیچے بھی اترے۔ اب تک مجھے سامنے نظر آتے ہیں۔ بْھوکے پیاسے 'کورالی کنسنٹریشن کیمپ' پہنچ گئے:کشاں کشاں دن کے بھوکے پیاسے اکیلے، زخمی اور لْٹ لٹا کورالی آن پہنچے۔کھدانوں میں قد آور پانی ،باغ میں جہاں کیمپ تجویز کیا ،پانی ہی پانی پھر رہا تھا۔ پھر غلاظت اس قدر کہ جس کا ٹھکا نا نہ تھا۔ کہیں بیٹھنے کو جگہ نہ تھی۔ اندھیری رات تھی۔ اور بادلوں کی چڑھائی بھی ہمراہ۔بار خدا !کیسا سماِ تھا!دنیا آ رہی تھی اور آوازیں دے دے کر ان کے جو جو لوگ بچھڑ گئے تھے انہیں پکار رہی تھی۔ میں بھی ایک درخت کے نیچے برخوردار برکت'اور بسیّ کے بمع ان کے بچوں کے بیٹھ گیا۔ اور صبح سے بھوکا پیا سا تھا۔ ان کے بچے بھی بھوکے پیا سے رو رہے تھے۔ خیر مجھے کچھ 'پنجیری' بسیّ نے کسی سے مانگ کر دی۔ہم لوگ سب سامان سڑک کی نذرکر کے خالی ہاتھ کیمپ میں داخل ہوئے۔ کبھی کبھی بارش بھی پڑتی تھی۔ آخر تمام رات بیٹھے رہے اور 'یاس و غم سے دل بہلایا'۔ کیمپ کے اندر کے حالات: صبح ہوئی ! تلاش شروع ہوئی۔ اللہ کا احسان ہو گیا کہ سب جی صحیح سلامت مل گئے۔ چنانچہ وہاں دْورجا کر خیمہ گاڑنے کی تجویز ہوئی۔ پاس کپڑا نہ تھا۔ سر پر دھوتیاں لپیٹ رکھی تھیں۔اور برخوردار اقبال یعنی ادریس کے سر پر ایک پرانی سی پگڑی بندھی ہوئی تھی وہ اتار' اور ایک درخت سے باندھ ، دوسری ایک لکڑی آم کی توڑ کرگاڑی اور اْوپر 'دو' دھوتیاں تان کر خیمہ بنایا۔ زمین گیلی اور بوسیدہ تھی ، لکڑی بھی آسانی سے گاڑی نہ جاتی تھی۔ صرف ایک دھوتی کے سایہ میں ، برکت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جو صرف گودی اٹھانے کے قابل تھے ، لے کر تمام رات کاتی جاتی تھی۔ نیچے سے پانی بہہ کر جاتا تھا۔ دن ہوتا تھا تو راشن کا انتظار ہوتا تھا۔آخر تیسرے دن کہیں جا کرراشن ملا اور وہ بھی 'ڈیڑھ چھٹانک75 گرامز فی کس کے حساب سے۔ جب آٹا آیا تو اوّل تو اسے کچا ہی پھانکنے لگ گئے۔ مگر جب 'گوندھ' کر روٹی پکانی چاہی تو بارش نے اس قدر زور کر دیا کہ آگ نہ جل سکے۔ زمین کھود کر چْولہا بنایا گیا۔ لیکن زمین بھی گیلی تھی۔ لکڑیاں میسر نہ تھیں۔ میں نے اپنا نیا کْرتہ پھاڑا اور آگ جلائی۔ایک اور شکرئے کا مقام یہ ہوا کہ قافلہ جس وقت آ رہا تھا تو ' بن ماجرہ' کی ندّی میں سے گذرتے ہوئے برخوردار احمد دین کو ایک تھیلی راستہ میں پڑی ہوئی ملی۔ چونکہ اپنا سامان پھینک چکے تھے ، اور خالی ہاتھ تھے،تو اس نے جاتے جاتے اس تھیلی کو ہاتھ ڈال لیاجو ہاتھ میں آ گئی اور یہ سوچا کہ جب تک ہو سکااٹھائی جا ویگی۔ اگر کوئی دقت محسوس ہوئی تو پھینک دوں گا۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن