ملتان کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے نامور برگزیدہ اولیاء اللہ کا مسکن یہ شہر مدینتہ الاولیاء کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔اس شہرمیں تقریباً ہر علاقے میں بزرگان اور ولی کاملین آسودہ خاک ہیں۔ تاریخ اسلام سے موجودہ صدی تک بے شمار بزرگوں نے ملتان ہی کو اپنا مسکن بنایا اور اسلام کی ترویج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ منشی غلام حسن شہیدؒ کا شمار بھی ایسی ہی عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے۔ آپ 1787 ء بمطابق 1202 ھ میں منشی جان محمد کے ہاں محلہ آغا پورہ بیرون دہلی گیٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کا نام منشی عاقل محمد تھا انکے خاندا ن نے قدیم زمانے میں راجپوتانہ سے ہجرت کی اور ملتان کو اپنا مسکن بنایا خانوادہ سرکاری دارالنشاء میں بطور منشی ملازم رہے یہی وجہ ہے لفظ منشی انکے خاندان سے منسوب ہو گیا۔ ملتان میں دیوان ساون مل اور دیوان مولراج کا راج تھا۔ یہ دونوں حاکم سکھوں کی حکومت میں صوبیدار کے عہدے پر براجمان تھے۔ جب منشی حسن کے علم و دانش اور تصوف کا چرچا ہوا تو ساون مل اور مولراج آپکی علمی صلاحیتوں کے معترف ہوئے اور آپ کی باقاعدہ شاگردی کی اور انہیں سرکاری طور پر منشی کی سند بھی عطا کی۔ سنا ہے منشی غلام حسن شہیدؒ کو حصول علم کی طرف رغبت نہ تھی لکھنے پڑھنے میں کم توجہی کی وجہ سے استادوں کی ڈانٹ ڈپٹ روز کا معمول تھا ایک دن سبق یاد نہ ہونے پر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے نوعمر منشی حسن رو رہے تھے مادرعلمی کے قریب سے ولی کامل حافظ جمال اللہؒ کا وہاں سے گزر ہوا تو حسن چشتی کے استاد سے اس بچے کو تعلیم کیلئے انکے حوالے کرنے کی استدعا کی چنانچہ منشی حسن نے حافظ جمال اللہ سے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور انکی ہی بیعت کی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق فارسی تصنیف زلیخا پڑھ رہے تھے حافظ صاحب وہاں سے گزرے تو فرمایا تو مجھے بھی انپا سبق سناؤ خوش گلو منشی حسن نے بڑے ترنم کے ساتھ یہ شعر پڑھا
درآن خلوت کہ ہستی بی نشان بود
یہ کنج نیستی عالم نہاں بود
یہ شعر سن کر حافظ صاحب پر وجد طاری ہو گیا کافی دیر بعد ہوش میں آنے کے بعد پانی مانگا ۔ غلام حسین شہید نے آپ کو پانی دیا اور باقی بچا ہوا خود پی گئے بس یہی لمحہ! انکی طبیعت میں یکسر تبدیلی آگئی ذہن روحانیت اور کشف کی طرف راغب ہو گیا اور پھر اپنے مرشد جمال اللہ کی رہنمائی میں ریاضت و عبادت کا سفر شروع کردیا۔ منشی غلام حسن شہیدؒ نے حضور اکرمؐ کی شان میں فارسی ‘ اردو‘ پنجابی اور سرائیکی میں بہت نعت گوئی کی مذکورہ زبانوںمیں بہت سی غزلیں ‘کافیاں بھی لکھیں ۔ آپ نے بہت سے مرثیے اور دوہڑے بھی تحریر کئے۔ آپ کی تصانیف میں دیوان حسن‘ دیوان فارسی‘ شمائل حسنیہ مثنوی‘ نورالہدایت اور مثنوی نورالہدیٰ شامل ہیں اسکے علاوہ آپ کا ہندی اور سنسکرت میں لکھا گیا کلام میں کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ آپکی قلمی تصانیف انکے سجادگان کے پاس لائبریری کی زینت ہیں۔ ایک دو کتب سابق سجادہ نشین مخدوم اعجازالحسن مرحوم نے طبع بھی کروائیں جو مارکیٹ میں موجود ہیں۔انکی فارسی میں لکھی نعت ’’قیم بقیلہ روئے تو یا رسول اللہ‘‘ پورے عالم اسلام میں زبان زدعام ہے۔ آپکا کلام مختلف قوالوں اور صوفیانہ اور عارفانہ کلام گلوکارہ عابدہ پروین نے بھی گایا ہے۔ اعلیٰ فارسی کلام کی خوبصورتی کی وجہ سے ملک ایران کے شہرا فیضان کی یونیورسٹی میں ایک بلاک منشی غلام حسن شہید کے نام سے منسوب ہے۔ آپ شاعری میں اپنا تخلص گانمن استعمال کرتے تھے۔
بے شمار مریدین نے آپ کے ہاتھ دست بیعت کی خاص طور پر جنوبی پنجاب میں رنگ پور کا کھیڑا خاندان اور ملتان میں قاسم بیلہ کے بھپلا خاندان نمایاں ہیں۔ ان کی حیاتی میں انکے آستانے پر سینکڑوں لوگ فیضیاب ہونے کیلئے آئے اور اس برگزیدہ شخصیت کے روحانی پہلوؤں سے مستفید ہوتے اسی طرح انکے وصال شہادت کے بعد ہزاروں زائرین انکی خانقاہ واقع محلہ آغا پورہ بیرون دہلی گیٹ آتے ہیں۔
روزق حلال کے حصول کیلئے منشی حسن نے اپنی خاندانی روایت کو قائم رکھا ‘ دیوان مولراج کی منشی گیری نہ چھوڑی۔ انگریز دور میں مسلمانوں کی بین المسالک ہم آہنگی اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا برداشت نہیں ہو رہا تھا بلکہ مسلم اتحاد کی مضبوط زنجیر انگریز کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی چنانچہ آپ کو شہید کرنے کی ٹھان لی گئی۔ نجومی کے مشورے کے بعد غلام حسن شہید کی نشانیاں بتائی گئیں اور انگریز حکمرانوں کو یہ بتایا گیا کہ ملتان کی چابیاں گانمن ملتان کے پاس ہیں لہٰذا انہیں مار کر ملتان فتح کیا جا سکتا ہے آپ کو شہید کرنے کی بھنک عام تھی ۔ مٹی کا ایک پیالہ آپ کے زیراستعمال تھا اوندھا رکھ دیتے تو دشمن ان پر وار نہیں کر سکتا تھا۔
29 محرم الحرام 1265 ھ بمطابق 1848 ء آپ اشراق کی نماز ادا کر رہے تھے فرنگیوں نے بندوق سے آپ پر فائر کیا اور خنجروں کے پے در پے وار کر کے شہید کر دیا۔ بتایا جاتا ہے اس روز پیالہ پانی سے بھرا پڑا تھا اوندھا نہ ہو سکا اور آپ پر دشمن کا وار کامیاب ہو گیا کیونکہ آپ پیالہ اوندھا کئے بغیر عبادت میں مشغول ہو گئے اور اس طرح جان جاں آفریں کے سپرد ہو گئی۔
فن تعمیر کا حسین شاہکار آپکا مزار مبارکمحلہ آغا پورہ چوک اور بیرون دہلی گیٹ ملتان میں مرجع خلائق ہے جہاں سینکڑوں عقیدت مند روزانہ زیارت کیلئے آتے ہیں ۔ مرقد کے جوار تلاوت قرآن پاک ہر وقت جاری رہی ہے ہر سال کی طرح امسال بھی موجودہ سجادہ نشین مخدوم احمد حسن کی زیرنگرانی عرس کی تقریبات 14 ‘15 ‘16 محرم الحرام کو منعقد ہوں گی ۔