امریکہ میں ایک تقریب میں ’’ حادی مطار‘‘ نامی امریکی شہری (جنکے والدین کا تعلق لبنان سے ہے)، نے چاقو کے وار کر کے ملعون سلمان رشدی کو شدید زخمی کر دیا۔ سلمان رشدی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا میں ’’ انتہا پسندی‘‘ کا چہرہ ہے۔ یہ الفاظ میں نے اس لیے کہے کہ یہ لو گ بے شک اپنے آپ کو ’’ لبرل‘‘ کہتے ہیں لیکن ان کے نزدیک آزادی صرف اس چیز کا نام ہے کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کریں اور اپنی مرضی اور خیالات زبر دستی تمام دنیا پر تھوپنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ویسے تو رشدی کی لکھی ہوئی تمام تحاریر طنزیہ، غیر حقیقی اور متنازعہ ہیں لیکن یہ شخص بدنامی کی بلندیوں پر تب پہنچا جب اس نے 1980 میں اپنی ایک تصنیف میں اسلام ، پیغمبر اسلام ﷺ اور اسلام کی کچھ اہم ترین شخصیات کی توہین و تضحیک کرنے کی جسارت کی۔ اس بارے میں سب ہی جانتے ہیں اس لیے ان تفصیلات میں جانے کی بجائے میرا موضوع تھوڑا فرق ہے۔ بحرکیف آخری خبریں آنے تک شیطان رشدی کی زندگی بچ گئی ہے۔ امریکہ اور کئی ممالک کی تنظیمیوں اور لکھاریوں نے سلمان رشدی کے ساتھ ’’یک جہتی‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ بدقسمتی سے ایک دو کو چھوڑ کر تمام مسلمان ممالک اور انکے حکمران سہمے ہوئے اور خاموش ہیں اور اس سلسلے میں مسلمانوں کی حقیقی اور منطقی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔ شاید اس ڈر سے کہ ان پر انتہا پسندی کا الزام نہ لگ جائے۔
گلی محلے میں دو بچوں کی لڑائی کا فیصلہ کرنے والے بھی یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ لڑائی کے اصل محرکات کیا تھے؟ ایسی کیا بات ہو گئی کہ ایک بچہ دوسرے کو تھپڑ مارنے پر مجبور ہو گیا۔ تھپڑ کھانے والا اور اسکے حواری واویلا تو بہت کر رہا ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اصل اور بنیادی غلطی مظلومیت کا رونا رونے والے کی ہو اور تھپڑ مارنے والا تھپڑ کھانے والے کی کسی زیادتی کی وجہ سے ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو گیا ہو۔ کہا جا تا ہے کہ اگر کوئی شخص چھڑی ہاتھ میں پکڑ ک صبح کی سیر کو جاتا ہے اور چھڑی گھما گھما کر سیر کرتا ہے تو یہ اسکا حق ہے ، لیکن اگر اسکی چھڑی گھومنے کے دوران، سیر کے لیے آنے والے دوسرے افراد کے چہروں کو لگنے لگ جائے تو پھر اسکا یہ حق ختم ہو جاتا ہے۔ اسکے چھڑی لہرانے کی آزادی کی حد اس جگہ تک ہے جہاں تک کسی اور کا چہرہ اور جسم نہیں ہے۔ ورنہ دوسروں کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کی حفاظت کریں، زبانی بھی اور ضرورت پڑنے پر جسمانی یا کسی بھی طریقے سے۔
دنیا کے تمام لوگ، ادارے، اقوام ، ممالک اور افواج کسی نہ کسی نظریے کے تحت اپنے اپنے کام کر رہے ہیں اور اپنے اپنے نظریے پر قائم رہنا اور ا سکا دفاع کرنا انکا بنیادی حق ہے۔ یہ یقین یا نظریہ قومی بھی ہو سکتا ہے، جماعتی، معاشرتی بھی اور مذہبی بھی ۔ دنیا کی تمام اقوام اپنے اپنے افراد کو اپنے اپنے نظریے کے دفاع میں خود مرنے اور دوسروں کر مارنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ اگر ایک بد بخت آزادیٔ رائے کے نام پر اربوں افراد کے نظریے کی تضحیک کرے تو اسکو روکنے اور سزا دینے کی بجائے اسے نام نہاد ایوارڈ دیے جائیں۔ اور اربوں مسلمانوں کو یہ حق بھی نہ دیا جائے کہ وہ اپنے نظریے ، دین اور مذہب پر ہونے والے پے در پے حملوں کے خلاف آواز بھی بلند نہ کر سکیں؟ صرف اس لیے کہ کچھ ’’ لبرل انتہا پسند‘‘ اس نظریے پر بار بار حملہ کرنا اور اس نظریے کی اہم، پاک اور معتبر ترین شخصیات کی توہین کو آزادی اظہار اور آزادیٔ تحریر کا نام دیتی ہیں۔ اگر دنیا کے تمام انسانوں کو دوسروں کے بارے میں ہر قسم کی بکواس کرنا آزادیٔ رائے تو ایسے آزدیٔ اظہار کو دریا برد کر دیا ہی بہتر ہو گا۔کیا مغربی دنیا کسی کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ ہولوکاسٹ کے خلاف کوئی کتاب امریکہ یا یورپ میں شائع کرے؟ آزادیٔ اظہار کے چیمپئین کہلانے والے ان ممالک میں آزدیٔ اظہار کے خلاف قوانین پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں کہ ان ممالک میں آزادیٔ گفتار و تحریر پر در حقیقت کتنی پابندیاں ہیں۔ امریکہ برطانیہ سمیت سارے مغربی ممالک میں آپ ’’ ہالوکاسٹ‘‘ کے خلاف بات کرنا تو دور کی بات اس بارے میں تحقیق بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ Belgium میں باقاعدہ " Holocaust Denial Law (1995) " ہے جس کے مطابق کسی کو یہ رائے دینے کی اجازت نہیں ہے کہ ہالوکاسٹ نہیں ہوا تھا۔ کینیڈا میں بھی ہالوکاسٹ کے خلاف بات کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن جب عالم اسلام کی مذہبی شخصیات اور رسومات کی بات ہو تو ان تمام ممالک کی حکومتوں کو اپنے ممالک کے قوانین بھول جاتے ہیں۔
کیا مسلمان ممالک یہ ہمت نہیںکر سکتے کہ یک آواز ہو کر دنیا کو یہ باور کروائیں اور سمجھائیں کہ آزادیٔ اظہار کی طرح اتنی ہی اہم ایک اور چیز ’’نفرت انگیز تقریر اور تحریر ‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ’’ ہیومن رائٹس کمیشن‘‘ جہاں ہر ایک کو معقول آزدیٔ رائے دیتا ہے وہاں دل آزاری کرنے والی نفرت انگیز تقریر اور تحریر پر پابندی لگانے کی بات بھی کرتا ہے ( بحوالہ شائع شدہ جنرل ڈرافٹ نمبر 34)۔ انگلینڈ ، فرانس، جاپان، ہالینڈ ناروے سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ ، کسی گروہ، نسل، مذہب کی تضحیک یا دل آزاری پر مبنی ’’نفرت انگیز تحریر و تقریر‘‘ نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے آئین کے آرٹیکل 19(2) کے تحت کوئی بھی ایسی تحریر یا تقریر جو بھارت کی سالمیت کے خلاف ہو، اخلاق یا مذہب کے خلاف ہو، عوام میں بے چینی پھیلانے کی وجہ یا کسی کی ہتک کا باعث بنتی ہو یا کسی دوست ملک خلاف ہو تو اس پر پابندی بھی ہے اور اس پر سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اتنے ممالک میں اتنے قوانین کا ذکر اس لیے کیا کہ اگر35 برسوں میں ملعون رشدی کو ان میں سے کسی قانون کے تحت سزا دے دی جاتی تو کوئی امریکی مسلمان انصاف کے حصول کے لیے اس طرح قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور نہ ہوتا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 16دسمبر 1966 ء کو ایک قرار داد آئی سی سی پی آر پاس کی تھی جس کے مطابق کوئی بھی ایسی تقریر یا تحریر جو کسی ملک میں رہنے والے کسی بھی فرد یا گروہ کی مذہبی، قومی یا نسلی مخالفت یا دل آزاری کا سبب بنے اور اور انکے خلاف نفرت یا حقارت کا اظہار کرے تو اس ملک کا فرض ہے کہ اس کو روکے اور اسکے خلاف قانون سازی کرے۔ اگر ان قوانین اور اخلاقیات پر انکی روح کے مطابق اور انصاف کے ساتھ عمل نہیں کیا جائے گا تو کوئی نہ کوئی ’’ سرپھرا عاشق‘‘ کسی بھی طرح کا قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائے گا۔ آپ اسلام سے متفق نہیں تو یہ آپکی مرضی ہے ۔ آپ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر۔ لیکن آپکو یہ حق بالکل نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے خیالات تمام مسلمانوں پر لاگو کریں اور انکے نظریے، مذہب اور مذہبی شخصیات کے بارے میں کچھ بھی بکواس بولتے اور لکھتے رہیں کیونکہ آزادیٔ اظہار کے نام پر یہ شر انگیزی کرنے والے ’’لبرل انتہا پسند‘‘ دراصل حقیقی نظریاتی دہشت گرد ہیں ۔