لڈو ایک ساتھ قسمت اور حکمت عملی کا کھیل ہے. اس کھیل میں دانہ تو سبھی پھینکتے ہیں.کسی کا چھوٹا نمبر آجاتا ہے کسی کا چھکا۔ نمبر کونسا آئیگا یہ تو قسمت کی بات ہے. اس نمبر کے ساتھ چال کیسے چلنی ہے یہ ہیآپ کی حکمت عملی۔ کئی بار اچھا کھلاڑی چھوٹے نمبر آنے پر بھی ایسی چالیں چلتا ہے کہ گیم اپنے ہاتھ میں کرلیتا ہے اور اناڑی کھلاڑی چھکے آنے کے باوجود غلط چالوں کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے. اس کھیل میں ہر چال دوسرے کی چالوں کو نظر میں رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر چلنی پڑتی ہے ورنہ اکثر ایک غلطی بڑی بھاری پڑ جاتی ہے۔ بات غلطی کی ہے تو دنیا میں کوئی ایسی غلطی نہیں ہوگی جو کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی کی نہ ہو. پھر بھی لوگ وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ دہراتے ہیں اور پھر کہہ دیا جاتا ہے انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن غلطیوں سے سبق بھی تو انسان ہی سیکھتے ہیں۔ آپشنز دو ہی ہوتے ہیں دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں یا پھر خود غلطی کرکے سیکھ جائیں. لیکن یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ دونوں کام نہیں کرتے. دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا تو دور، اپنی غلطیوں کو بھی بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ کچھ بات کرنی ہے سیاست کی تو سیدھا اسی جانب آجاتے ہیں۔ یہاں بھی سیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے غلطیوں پہ غلطی کی اور پھر بھی کچھ نہ سیکھا۔ آپ کو کیا لگتا ہے گزشتہ ڈیڑھ دو سال کا سب سے بڑا سبق کیا ہے۔ جی بالکل تحریک انصاف اور عمران خان۔ جنہوں نے غصے اور عدم برداشت کی وجہ سے ایسی ایسی غلطیاں کیں جو انہیں آسمان سے زمین پر لے آئیں۔ اقتدار کی کرسی سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ ویسے تو ان کی حکومت کے جو حالات تھے خان صاحب کو پی ڈی ایم والوں کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ ان سے حکومت چھین کر انہیں سیاسی شہید بننے کا موقع دیا۔ وہ بیٹھ کر کھل کر اپوزیشن کرتے۔ انتخابات کا انتظار کرلیتے لیکن انہوں نے تو اسے حق و باطل کی جنگ بنادیا۔ غداری اور حب الوطنی کی لکیر کھینچ دی اور ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا یہاں تک کہ ملکی مفاد کو بھی اور ایک سفارتی خفیہ دستاویز پر کھیلنا شروع کردیا۔ وہ دستاویز جو تحریر ہی کوڈ ورڈز میں کی جاتی ہے تاکہ صرف متعلقہ اور مخصوص شخصیات تک ہی وہ پیغام پہنچ سکے ، کسی اور کو اسکی بھنک بھی نہ پڑے۔ عمران خان نے اس دستاویز کی حساسیت اور اس سے وابستہ حساس معاملات کو ہی نظر انداز کر دیا اور عوامی جلسے جلوسوں میں اسکے تذکرے شروع کردئیے۔ ویسے تو عمران خان نے حکومت کھونے کے بعد غلطی پر غلطی کی۔ اسمبلیوں سے استعفے یا اسمبلیوں کی تحلیل تو سیاسی غلطیاں قرار دی جاسکتی ہیں لیکن سائفر پر کھیلنا ایک بڑا بلنڈر تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کیلئے آپ کسی حد تک جاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے پر بیٹھا شخص بہت سی حساس معلومات سے واقف ہوتا ہے لیکن اس کے حلف میں شامل ہے کہ وہ یہ معلومات کسی صورت کسی کے علم میں نہیں لائے گا۔ اس کی خلاف ورزی پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ بھی لاگو ہوجاتا ہے اور پھر اس بات کا نیشنل میڈیا پر اعتراف کہ سائفر کی کاپی کھو گئی۔ یہ اپنی نوعیت کا الگ سے جرم ہے۔ شاید خان صاحب خود کو مقبولیت کی اس معراج پر لے گئے تھے جہاں ان کے لئے ان معاملات کی حساسیت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ جیسے بچے کو چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرنے پر نہ ٹوکا جائے تو وہ بڑی غلطیاں شروع کردیتا ہے۔ خان صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور پھر نو مئی کا دن آگیا۔ اس دن جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ اسکے بعد جو ہوا وہ حال بھی اور مستقبل بھی۔ ملک کی سب سے بڑی قرار دی جانیوالی جماعت تتر بتر ہوگئی۔ یہ حال ہے اور نو مئی اور سائفر کا معاملہ کتنوں کی سیاست ختم کردیگا یہ مستقبل۔ معاملہ کتنا سنگین ہوچکا ہے۔ بہت سوں کو شاید اس کا احساس ہی نہیں۔ لڈو میں سانپ سیڑھی والا کھیل تو سبھی نے کھیلا ہوگا۔ یہاں ایک سیڑھی ہوتی ہے جو آپ کو ایک شارٹ کٹ سے بہت اوپر لے جاتی ہے۔ خان صاحب کو سیاست میں ایک ایسی سیڑھی کا سہارا ملا لیکن انہوں نے اپنی غلط چالوں سے خود کو ننانوے والے سانپ کے منہ پر لاکھڑا کیا جو آپ کو وہیں واپس لے جاتا ہے جہاں سے آپ کا کھیل شروع ہوا تھا۔ بلکہ شاید کھیل سے ہی آوٹ۔