قوموں کے لیے آزادی بہت بڑی نعمت ہے اسی لیے ہر سال 14 اگست کو پاکستان بھر میں تقریبِ یومِ آزادی بڑے جوش و جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ روٹری کلب لاہور نیو مسلم ٹا?ن نے بھی ہمیشہ کی طرح بھرپور انداز میں علمی، فکری بہترین تقریب کا انعقاد کیا۔
روٹری کلب آف لاہور کے صدر محترم نصرت چشتی نے 14۔ اگست 2023ء کو تقریب سعید میں دعوت دی کہ میں بحیثیت مہمان مقرر، مہمانانِ گرامی کو وطنِ عزیز پاکستان کے حصول اور تحریکِ پاکستان و تاریخِ پاکستان پر اپنے خیالات سے محظوظ کروں۔ یہ روٹری کلب 7دسمبر 1927ء کو قائم کی گئی تھی۔ اب 96سال بعد بھی بے حد فعال ہے۔ لاہورمیں تیس سے زیادہ روٹری کلبز ہیں لیکن روٹری کلب آف لاہور سب سے قدیم ہے جس کا دفتر ایوبیہ مارکیٹ نیو مسلم ٹا?ن لاہور میں اپنی تعمیر شدہ عمارت میں قائم کیا گیا ہے۔ یہاں فری ڈسپنسری بھی ہے اور تمام ممبران ہفتہ وار اجلاس منعقد کرتے ہیں جس میں انتظامیہ ضرور ت مند اور بے سہارا افراد، طلبا و طالبات، مریض و دیگر مستحقین کی مدد کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کرتی ہے۔ 14 اگست کی تقریب یومِ آزادی کی صدارت صدر کلب نصرت چشتی نے فرمائی جبکہ مہمانِ خصوصی ڈسٹرکٹ گورنر مسرور جاوید شیخ تھے۔
راقم ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم کو مہمانِ مقرر /مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔دفتر کے صحن میں تمام اراکین و مہمانانِ گرامی نے جھنڈا پاکستان لہرانے کی سعادت حاصل کی۔ سب نے مل کر قومی ترانہ گایا اور پھر ہال میں جمع ہو گئے۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد مجھے دعوتِ سخن دی گئی ۔ میں نے اپنے مشاہدہ، تجربہ، مطالعہ اور عظیم و نامور ہستیوں سے ملاقات و کتب کے مطالعہ کے حوالہ سے بڑے جوش و جذبہ سے بتایا کہ کس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دیگر اہم سیاسی رہنمائوں اور عوام کی مدد سے آزاد وطن پاکستان حاصل ہوا۔
مسلمانوں اور ہندوئوں کے رہن سہن، ثقافت، عمرانی صورت حال اور میل جول میں بے حد فرق تھا۔ ہندو مسلمانوںسے نفرت کرتے تھے۔ اگر کوئی مسلمان ہندوئوں کے برتن کو ہاتھ لگا دیتا یاگھر میں قدم رکھتا تو وہ کہتے کہ یہ برتن اور گھرکا یہ حصّہ مسلمان کے آنے سے پلید ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی ثقافت اللہ اکبر، رواداری، مساوات، بھائی چارہ اور محبت کے اْصولوں پر مبنی ہے جبکہ ہندوئوں کو یہ سب کچھ مسلمانوں کے حوالہ سے پسند نہیں تھا۔ 3 جون منصوبہ 1947ء کو اعلان کیا گیا اور طے کر لیا گیا کہ جو علاقے مسلم اکثریت کے ہیں وہ پاکستان میں شامل ہوں گے لیکن تعصب کی انتہا نہ رہی۔ جب 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو کئی اضلاع عملی طور پر پاکستان کے نقشے سے غائب تھے۔
منٹو پارک لاہور میں جہاں مینارِ پاکستان ایستادہ ہے وہاں 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان میں بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے بھی دسمبر 1930ء کو الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا تصور دیا تھا۔ اْنھوں نے فرمایا تھا ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو مِلا کر ایک ریاست بنا دی جائے۔
روٹری کلب آف لاہور کی اس تقریبِ یوم آزادی میں شامل ہونے کے لئے بچے، جوان، نوجوان، بزرگ مرد و خواتین جوق در جوق جمع ہوئے ہیں۔ مینں روانی سے بولتا جا رہا تھا کہ یہ سب کچھ دل پہ لکھا تھا اور سب سامعین و ناظرین ہمہ تن گوش تھے۔
میں نے اپنی علمی و فکری بساط کے مطابق اپنے خطاب میں بتایا کہ پاکستان بڑی مشکلات، پریشانیوں اور مصیبتوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ وطنِ عزیز، دینِ اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا لیکن ساری دنیا میں تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ بادشاہ گردی ہوا کرتی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے وقت رعایا گردی ہوئی اور سینکڑوں یا ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا گیا۔ جالندھر سے ایک ریل گاڑی اپنے مسافروں کو لے کر جب لاہور پہنچی تو سوائے ڈرائیور کے سب قتل کر دیئے گئے۔ نشستوں، فرش اور دروازوں سے انسانی خون بہہ رہا تھا۔ پچاس ہزار مسلمان خواتین امرتسر سے آگے واہگہ بارڈر عبور نہ کر سکیں، اغوا ہو گئیں یا جان سے ماردی گئیں۔ پروفیسر مشکور حسین یاد کی کتاب ’’آزادی کے چراغ‘‘ ایسی دل خراش یادداشتوں سے بھری پڑی ہے۔ حکایت رسالہ میں عنایت اللہ نے بہت زخمی کہانیاں درج کیں۔ پروفیسر مظفر بخاری نے بھی ایسا ہی بہت کچھ لکھا کہ مسلمان آگ کا دریا عبور کر کے آئے تھے کوئی تو جل گئے اور کوئی پہنچ گئے۔
قیام پاکستان کے لئے شب و روز عوامی تحریک چلانے والے لاتعداد لوگ ہیں۔ کئی ایک عظیم ہستیوں کے نام آتے ہیں۔ سر سیّد احمد خاں، مولانا محمد علی جوہر، لیاقت علی خاں، عبدالرب نشتر، راجہ غضنفر علی خاں، آئی آئی چندریگر، نواب وقارالملک، نواب آف ڈھاکہ سلیم اللہ خاں، چوہدری رحمت علی، چوہدری محمد علی، خان عبدالقیو م خاں، پیر صاحب زکوڑی شریف اور پیر صاحب مانکی شریف اور لاتعداد نے قیامِ پاکستان کے لئے بھرپور انداز میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔
صدرِ محفل نصرت چشتی نے اپنے خطاب میں سب کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ ہمیں ہجوم کے بجائے قوم بننا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ گورنر مہمانِ خصوصی محترم مسرور جے شیخ نے اپنے خطاب میں سب کے جوش و جذبہ کی داد دی بزرگ روٹرین محترمہ دْرِ شہسوار نے آخر میں مقرر و دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کیا ۔ نامزد ڈسٹرکٹ گورنر محترمہ ڈاکٹر شاہینہ آصف، سابق ڈسٹرکٹ گورنر سعید شمسی، سابق ڈسٹرکٹ گورنر ڈاکٹر منصورالحق سابق ڈسٹرکٹ گورنر سیف اللہ اعجاز چوہدری، خاتونِ اوّل روٹرین سلمیٰ نصرت، سابق صدر روٹری کلب عشرت شمیم، ان کی ساتھی محترمہ سمیرا نذیر، سابق صدر روٹری کلب اور شاعرہ تسنیم کوثر، سروش جاوید، محترمہ شائستہ خاور،پروفیسر محفوظ قطب، ریاض مسعود، حاکم علی، میجر خالد نصر، ناصف اعوان اور متعدد خواتین و حضرات نے اس ملی جوش و جذبہ پہ مبنی تقریب میں شمولیت اختیار کی۔
چند احباب نے ملی نغمے گائے۔ شیخ منصور الحق نے بہترین انداز میں نقابت کے فرائض انجام دیئے۔ حسبِ سابق تمام حاضرین کی لاہوری ناشتہ سے تواضع کی گئی۔