جدیدیت اور یذیدیت

Aug 22, 2023

غلام شبیر عاصم

کالم:لفظوں کا پیرہن 
تحریر:غلام شبیر عاصم 
اسی کی دہائی میں ہمارے گاوں میں بچیوں اور بالغ لڑکیوں کو بشیراں بی بی،رسولاں بی بی،مختاراں بی بی،اور سلمٰی بی بی اپنے اپنے محلوں میں قرآن پاک کی تعلیم دیتی تھیں۔اس زمانے میں ہر گاوں میں ایسی چند خواتین ضرور ہوتی تھیں،جو قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم دے کر دانشور نپولین کے نظریہ کے تحت کہ"آپ مجھے ایک کامیاب ماں دے دیں میں آپ کو ایک اچھی قوم دے دوں گا"ایک لڑکی کو قرآن کی تعلیم دے کر کئی نسلوں میں قرآن کی تعلیم منتقل کرتی تھیں۔ عصر کے وقت مکانوں کی چھتوں پر بچے بچیاں قرآن پڑھتے تھے،سناٹے کے اس زمانہ میں،چھتوں پر سے قرآن پاک کی تلاوت حلاوت بن کر سننے والوں کی روح میں اترتی جاتی تھی۔جو لڑکیاں سکول کی تعلیم سے محروم تھیں وہ بھی قرآن پاک کو ضرور پڑھتی تھیں۔والدین ترجیحا?? قرآن پاک کی تعلیم کے لئے اپنی بیٹیوں کو گاوں کی کسی خاتون کے پاس بھیجتے تھے۔ترجمہ کے بغیر ہی ناظرہ قرآن کی تعلیم کا بھی ایسا اثر ہوتا تھا جیسے ان لڑکیوں نے قرآن پاک کی آیات مقدسہ کا مکمل مفہوم جان لیا ہو۔قرآنی آیات کا مقصد اس زمانے میں زندگیوں میں عملی شکل میں  جھلکتا تھا۔آیات کا مفہوم و مقصد گویا روحوں میں اتر کر زندگیوں پر اپنا رنگ چڑھاتا تھا۔خوفِ خدا دل و دماغ میں گھر کر چکا تھا،جو معاشرتی اقدار سے واضح نظر آتا تھا۔ملاوٹ،اخلاقی گراوٹ، دھوکہ،فحش گوئی،بے پردگی،جھوٹ و فریب اور منافقت جیسی لعنت اس وقت موجودہ حد  تک انسانی زیست میں خیمہ زن نہیں ہوئی تھی۔قرآن پاک،روزہ اور نماز کے ساتھ انسانوں کا بڑا لگاو ہوتا تھا۔جس کی وجہ سے زندگیاں تقویٰ،روحانیت اور شرافت کے قریب تر ہوتی تھیں۔نظروں میں حیا،دل میں خلوص اور دماغ میں مثبت سوچوں کا ڈیرا ہوتا تھا۔گاوں کے کسی بزرگ کو دور سے آتے ہوئے دیکھ کر گلی یا دروازوں میں بیٹھی ہوئی عمر رسیدہ خواتین پر بھی شرم اور خوف کے اثرات طاری ہوجاتے تھے۔دوپٹہ یا چادر سے گھونگھٹ کر لیتی تھیں۔اس زمانے میں جوان لڑکے لڑکیاں اکٹھے کھیلتے تھے لیکن سوچوں میں کبھی سیاہی اور نیت میں کھوٹ نہیں آتی تھی۔ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی گویا وہ پڑھے لکھے اور باکردار لوگوں کا معاشرہ تھا۔اخلاقی قدریں انسانی زندگی میں سانس لیتی تھیں۔مگر اب اس کے برعکس درجنوں ڈگریاں ہونے کے باوجود بھی انسانی زندگی تکبر و تکدر،نحوست اور فحش و مطروح اقدار سے بھری پڑی ہے۔آج کل تعلیم عام ہے لیکن اس کے مثبت اور تعمیری اثرات بہت کم نظر آ رہے ہیں۔لگتا ہے ہمارا مقصدِ تعلیم اورطرزِ تعلیم سازشی عزائم کی ذد میں آچکا ہے۔روشن خیالی اور جدیدیت اب یزیدیت بن کر ہماری زندگیوں میں اتر آئی ہے۔دینِ محمد?ی کی تعلیمات اور فکرِ حسینی کو یزیدی اور ابلیسی سازشوں نے گھیر لیا ہے۔ابلیسی سوچوں نے عقلوں کو ملفوف کردیا ہے۔مقصدِ دینِ محمد?ی اور فکرِ حسینی کو ہم نے جدیدیت کے تقاضوں کی نذر کردیا ہے۔اخلاقی و نظریاتی پستی کلچر کے نام پر ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ یزیدیت و ابلیسیت سرِ بازار محوِ تماشا ہے۔آج ہم قرآن پاک اپنی بچیوں کو جہیز میں بھی دیتے ہیں،ہر گھر میں موجود بھی ہے لیکن اس سے پیار اور طلبِ فکر کا رشتہ جوڑنے سے قاصر ہیں۔درحقیقت ہماری زندگیاں قرآن کی فکر سے خالی ہوکر الٰہیہ برکات و عنایات سے محروم ہوگئی ہیں۔اب دیہاتوں کی چھتوں اور گھروں کے روشن دانوں سے تلاوتِ قرآن کی آوازیں نہیں آتیں۔80 ئ￿  کی دہائی تک کی وہ مائیں،دادیاں اور قرآن پڑھانے والی مدبر و معمر خواتین آغوش لحد میں اتر گئی ہیں۔گویا قرآن خوانی کی وہ روائیت بھی درگور ہوچکی ہے۔آج کی پڑھی لکھی اکثر بہنیں بیٹیاں مہینوں قرآن نہیں کھولتیں،نصابی کتابوں اور دیگر مشاغل سے ہی فرصت نہیں ہے۔اب تو ابلیس لباس بدل بدل کر،شمر و یذید حلیہ بدل بدل کر ہماری جوان نسل پر تیغ کھینچے ہوئے ہیں۔ہماری بیخ کنی کے لئے اب تو چار سْو جدیدیت اور یزیدیت ہی پھیلی ہوئی ہے۔طرزِ زندگی میں یہ جدیدیت بڑی حد تک یذیدیت سے ماخوذ ہے۔کوئی عملی طور پر فکرِ حسینی کا ع?لم بلند کرنے والا نہیں ہے۔ہم کہنے کی حد تک لبیک یارسول? اور لبیک یاحسین? کے دعوے دار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کئی قباحتیں اور خباثتیں در آئی ہیں۔ آو اپنی زندگی میں دینِ محمد?ی اور فکرِ حسینی کی حقیقی چمک پیدا کریں جو ہر میلی نظرکو خیرہ کردے۔

مزیدخبریں