بنگلہ دیش کے بعد تھوڑی تحقیق کی بدولت میں نے ایک اور ملک بھی دریافت کرلیا ہے۔ اس ملک میں بھی ’’نظام کہنہ‘‘ نے نہایت دیدہ دلیری سے حال ہی میں نوجوانوں کے خوابوں کو عملی شکل کی صورت اختیار کرنے نہیں دی۔ ذکر اس ملک کا فی الحال موخر کررہا ہوں۔ آپ چاہیں تو یہ کالم چھپنے کے بعد سوشل میڈیا پر لکھے تبصروں کے ذریعے اس ملک کا نام لکھ سکتے ہیں جس کا ذکر بنگلہ دیش کے تناظر میں رکھ کر بیان کرنا چاہ رہا ہوں۔
’’نظام کہنہ‘‘ کی یاجوج ماجوج کے سامنے کھڑی دیوار کی طرح مسلسل قائم رہنے کی وجوہات تلاش کرنے میں وقفہ لینے کی وجہ ایک ہی موضوع پر آئے سوالات ہیں جو گزشتہ چند دنوں میں مجھ سے پوچھے گئے۔ ان کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ مزید بڑھنے سے قبل مگر پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
اس کالم کے دیرینہ قاری بخوبی آگاہ ہیں کہ جنوری 2022ء کا آغاز ہوتے ہی دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ کسی حکومت سے ایک پنجابی محاورے کے مطابق ’’نکونک‘‘ ہوئی اپوزیشن جماعتوں کو بلاشبہ یہ آئینی حق میسر ہے کہ وہ باہمی اختلافات بھلاکر تحریک عدم اعتماد کا حربہ بروئے کار لائیں۔ آئینی حق کو یاد رکھتے ہوئے بھی میں التجا کرتا رہا کہ عمران حکومت کو گھر بھیجنے سے گریز کیا جائے۔ عوام میں کاملاََ عدم مقبول ہونے کے باوجود تحریک انصاف اقتدار سے محلاتی سازشوں کے ذریعے محروم کردی گئی تو معاملات نئی حکومت سے بھی سنبھالے نہیں جائیں گے۔
جو خدشات میرے ذہن میں آئے وہ ’’غیب‘‘ سے نہیں آئے تھے۔ ’’ستاروں کی چال‘‘ یا نجومیوں کے بنائے زائچے بھی ان کا سبب نہیں تھے۔ اتفاقاََ دسمبر2021ء کے آخری دو مہینوں میں چند اہم ملکوں کے متحرک سفارتی نمائندوں سے یکے بعد دیگرے سماجی ملاقاتیں رہیں۔غیر ملکی سفارت کاروں سے تفصیلی گفتگو کے بعد علم ہوا کہ ٹرمپ کی جگہ آئی بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے اپنی افواج کی ذلت آمیز واپسی سے بہت شرمندہ اور پریشان ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج اور اس کے مددگار افغانوں کو واپس لے جانے والے طیاروں کے ساتھ چند کم عمر نوجوان چمٹ گئے تھے۔ طیارے جب فضا میں بلند ہوئے تو ان سے چپکے نوجوانوں کے جسم زمین پر گرکر بکھرگئے۔ اس کے نتیجے میں جو فوٹیج ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلی اس نے امریکہ کے پڑھے لکھے اور دردمند افراد کو 1970ء کی دہائی میں امریکہ کی ویت نام سے واپسی کے مناظر یاد دلادیئے۔ امریکی عوام کے جذبات سے مجبور ہوکر وہاں کی پارلیمان امریکی فوج کے اعلیٰ ترین جرنیلوں کو اپنی کمیٹیوں کے روبرو طلب کرنے کو مجبور ہوئی۔ ان سے ہوئے تابڑ توڑ سوالات ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائے گئے۔ ڈرامائی ماحول کی بدولت بھڑکائے جذبات سے جند چھڑانے کے لئے بائیڈن انتظامیہ نے نہایت مکاری سے پاکستان کو اپنی خفت وذلت کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ اوبامہ کے دورِ صدارت ہی میں پاکستان پر افغانستان کے حوالے سے ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلنے کے الزامات لگنا شروع ہوگئے تھے۔ مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک قلعہ نما مکان پر ہوئے حملے میں ہلاکت کے بعد مذکورہ الزامات میں مزید شدت آئی۔ دریں اثناء ریمنڈ ڈیوس اورپاک- افغان سرحد پر واقعہ سلالہ چوکی پر امریکی حملے کی وجہ سے پاکستان بھی اپنی خودمختاری کی دہائی مچانے کو مجبور ہوگیا۔
سفارت کاروں سے ہوئی ملاقاتوں کی بدولت میں یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ کے دل میں پاکستان کے خلاف جو غصہ جمع ہورہا ہے اس کے اظہار کے لئے پاکستان پر اقتصادی دبائو بڑھایا جائے گا۔ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ -آئی ایم ایف -اس ضمن میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ وہ پاکستان کی آسان شرائط کے تحت مدد کو آمادہ نہیں ہوگا۔ ہمیں سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے کی جانب دھکیلے گا۔
جنوری 2023ء کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد کے ایک گھر میں ’’بڑا کھانا‘‘ تھا۔ دوپہر کی دھوپ کو انجوائے کرتے ہوئے اس کھانے میں مسلم لیگ (نون) کے دس سے زیادہ اہم ترین رہ نماء بھی شریک تھے۔ ان میں سے ایک صاحب کو میں بہت پڑھا کو اور عالمی حالات سے کامل آگاہ تسلیم کرتا ہوں۔ وہ کھانا لے چکے تو میں انہیں ایک کونے میں لے گیا۔ نہایت خلوص سے یہ جاننا چاہا کہ مذکورہ بالا ماحول کے ہوتے ہوئے ان کی جماعت عمران حکومت کی جگہ کیوں لینا چاہ رہی ہے۔ مجھے یقین مانیں بہت حیرت ہوئی جب دیانتدارانہ تجسس پر مبنی سوالات کے جواب میں ان کے چہرے پر فلمی انداز کی مسکراہٹ آئی۔ سازشی سرگوشی میں موصوف نے فقط یہ اطلاع دی کہ عمران حکومت 29نومبر2022ء سے تقریباََ 6ماہ قبل فیض حمید کو آرمی چیف نامزد کرنے کا اعلان کردے گی۔ اس سے قبل 1991ء میں آصف نواز جنجوعہ کی جنرل اسلم بیگ کی میعادِ ملازمت ختم ہونے سے تین ماہ قبل نامزدگی کا اعلان کردیا گیا تھا۔ عمران حکومت غالباََ اسی نظیر کو بروئے کار لاتے ہوئے تین کے بجائے چھ ماہ قبل ہی نئے آرمی چیف کو نامزد کرنے کے ارادے باندھے ہوئی تھی۔
موصوف سے جو گفتگو ہوئی اسے سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ مجھ سادہ لوح کی دانست میں سیاستدان اہم فیصلے لیتے ہوئے فقط اپنے حتمی مفادات اور اہداف کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ کسی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے محض اس وجہ سے ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ فلاں شخص کی بطور آرمی چیف نامزدگی کا اعلان وقت سے چھ ماہ قبل کردے گی۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے زیرک اور انتہائی تجربہ کار سیاستدان مگر فیض حمید کی متوقع یا مبینہ نامزدگی روکنے کے لئے ذہنی طورپر تیار ہوچکے تھے۔ دو ٹکے کے مجھ ایسے رپورٹر انہیں اس عمل سے باز رکھنے کی قوت سے محروم تھے۔
بالآخر تحریک عدم اعتماد پیش ہوکر کامیاب بھی ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ وہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے سامنے وطن عزیز کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر سرنگوں ہونے کو مجبور ہوئی۔ 2022ء کی اپریل سے شروع ہوا مہنگائی کا عذاب مسلسل جاری ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی دشوار سے دشوار تر ہورہی ہے۔ پٹرول خریدنا دل جلادیتا ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کو فیض حمید کی متوقع یامبینہ نامزدگی روکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود جب رواں مہینے کے آغاز میں موصوف گرفتار ہوئے اور ان کے ’’نیٹ ورک‘‘ کی کہانیاں پھیلنا شروع ہوئیں تو مجھ سے مسلم لیگ (نون) کے چند سنجیدہ حامی ’’اوئے توئے‘‘ کئے بغیر یہ پوچھنا شروع ہوگئے کہ فیض حمید کے مبینہ نیٹ ورک اور اس کے ارادوں اور ’’وارداتوں‘‘ کی جو داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے کیا اب بھی میں اس سوچ پر قائم ہوں کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک اعتماد پیش کرنا غلطی تھی۔ لگی لپٹی کے بغیر میرا جواب ہاں میں ہے۔زیادہ سے زیادہ لچک یہ کہتے ہوئے دکھاسکتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کامیاب ہوگئی تھی تو اس کے بعد قائم ہوئی حکومت کو فی الفور نئے انتخابات کی جانب جانا چاہیے تھا۔ میں نے یہ جواب لکھا تو یاددلایا گیا کہ پنجاب میں پرویز الٰہی اور خیبرپختونخواہ میں محمود خان کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے محض قومی اسمبلی کیلئے ہوئے انتخابات عمران مخالف قوتوں کے کسی کام نہ آتے۔ یہ دلیل پڑھ کر میں اپنا سرپکڑلیتا ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ فیض حمید کی متوقع یا مبینہ نامزدگی روکنے کے نام پر ہم مزید کتنے برس مسلسل سیاسی اور معاشی عدم استحکام برداشت کرسکتے ہیں۔