ہم بھی عجیب قوم ہیں، پانی ہو تو مسئلہ نہ ہو تو مسئلہ، بارش ہو تو مسئلہ نہ ہو تو مسئلہ، گندم ہو تو مسئلہ نہ ہو تو مسئلہ، ہسپتال ہو تو مسئلہ نہ ہو تو مسئلہ، سکول کھلیں تو مسئلہ نہ کھلیں تو مسئلہ، الیکشن ہو تو مسئلہ نہ ہو تو مسئلہ، یعنی ہم ہر حال میں اپنے لیے کوئی مسئلہ نکال رکھتے ہیں۔ کراچی والوں کو پینے کا پانی ملے تو مسئلہ، نہ ملے تو مسئلہ، کراچی میں بارش نہ ہو تو مسئلہ بارش ہو تو زیادہ بڑا مسئلہ یہ وہ حالات ہیں جن کاان دنوں بھی سامنا ہے۔ ایسی ہی کچھ خبریں بھی سامنے آئی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وسائل کا نہ ہونا مسئلہ ضرور ہوتا ہے لیکن وسائل کو ضرورت مندوں تک پہنچانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ وسائل کی حفاظت نہ کی جائے تو مشکلات میں اضافہ کوئی بڑی بات نہیں۔
خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں سرکاری گودام سے گندم کی پانچ کروڑ سے زائد مالیت کی چار ہزار آٹھ سو پچاسی بوریاں غائب ہوئی ہیں۔ اب یہ خبر بھی حیران کن ہے کہ آج کے دور میں جہاں ایک ایک حرکت کیمرے میں محفوظ ہو رہی ہوتی ہے وہاں چار ہزار سے زائد لگ بھگ پانچ ہزار ہی کہہ لیں اتنی بڑی تعداد میں گندم کی بوریوں کا غائب ہونا کوئی معمولی واقعہ تو نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تو سوئیاں بھی غائب ہوں تو زمانے کو خبر ہو جائے یہ تو پھر گندم کی بوریاں ہیں۔ یعنی ایسی سیٹنگ کر رکھی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ گندم کی کمی پورا کرنے کے لیے بوریوں میں مٹی بھی ملا دی گئی۔ اس معاملے میں محکمہ خوراک کے گودام انچارج کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اصل چوروں تک پہنچا جاتا ہے یا نہیں کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر کارروائی کی جائے تو یہ صرف نچلے طبقے کی جرات نہیں ہو سکتی اس میں کچھ نقاب پوش بھی ہو سکتے ہیں۔ اس واقعے میں تکلیف دہ بات یہ ہے کہ گندم چوری کا یہ واقعہ بلوچستان میں ہوا ہے۔ ایسا صوبہ جہاں پہلے ہی وسائل کی محرومی کا شور رہتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ وہاں گندم بھی چوری ہونا شروع ہو گئی ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو پر بھی اختیارات کے ناجائز اور فنڈز کے غلط استعمال یا کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایسا صوبہ جہاں وسائل کی محرومی کا شور ہو وہاں تو صاحب اختیار یا اقتدار میں آنے والوں کو ایسے کاموں سے دور رہنا چاہیے۔ یعنی وسائل کا ہونا یا نہ ہونا کسی کو کچھ کرنے یا نہ کرنے سے روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔
بلوچستان سے نکلیں کراچی میں داخل ہوں تو یہاں پینے کا پانی چوری ہو رہا ہے یا پھر ضائع ہو رہا ہے اور یہ اس صوبے میں ہو رہا ہے جہاں کے حکمرانوں کو یہ اعتراض ہے کہ حکومت پنجاب نے شہریوں کو دو ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں چودہ روپے فی یونٹ سہولت کیوں دی ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں پینتیس سے اٹھاون فیصد پینے کا پانی چوری اور لیکج کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ ہے۔ یہ پنجاب حکومت، خیبر پختونخوا حکومت یا بلوچستان حکومت کی رپورٹ نہیں ہے جس پر سندھ حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ اس رپورٹ میں تعصب نظر آتا ہے۔ یہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ ہے سندھ حکومت کو یا تو اس کی تردید کرنی چاہیے یا پھر ایشیائی ترقیاتی بینک پر مقدمہ کرنا چاہیے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث شہروں میں بنیادی سہولت کافقدان بڑھے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں کراچی کا جی ڈی پی میں حصہ 15 فیصد اورٹیکسز میں 55 فیصد تھا، پاکستان کے 10 بڑے شہر وفاقی ٹیکسز میں 95 فیصد کنٹری بیوشن کر رہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے، لوکل گورنمنٹ شہروں میں سروسز اور مینجمنٹ کو بہتر نہیں بنا سکے۔ 2040 تک پانی کی کمی کاسامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان 23 ویں نمبرپر آسکتا ہے، شہری علاقوں میں 43 فیصد آبادی کو بہترین پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کاسامنا ہے، شہری علاقوں میں آبادی کو پینے کے لیے طلب سے نصف مقدارمیں پانی فراہم کیا جارہا ہے جب کہ کراچی میں پینے کے پانی کا تقریباً پینتیس سے اٹھاون فیصد چوری اور لیکج کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں مختلف شعبوں میں بدانتظامی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سمیت دیگر مسائل کی نشاندہی دہی بھی کر دی ہے۔ گوکہ اس رپورٹ میں صرف کراچی کے مسائل کا حوالہ نہیں دیا گیا لیکن کراچی میں پانی چوری اور ضائع ہونے کا بطور خاص ذکر ہوا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، پھیلتے ہوئے شہروں، کم ہوتے پانی سمیت ہم ممکنہ مشکلات کے حوالے سے کچھ نہیں کر رہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی پر کسی کی توجہ نہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث وسائل میں اضافے کے لیے اگر منصوبوںں، وسائل کو محفوظ کرنے اور وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے تو اس معاملے میں بھی حکومتی سطح پر کوئی پالیسی نظر نہیں آتی۔ توانائی بحران، غذائی بحران سمیت کئی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن ان بحرانوں سے نمٹنا کیسے ہے بس یہ وہ سوال ہے جو ہر وقت پریشان کرتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے شیرافضل مروت کے دعوؤں کی تردید کر دی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے شیرافضل مروت سے صرف ہاتھ ملایا تھا، گلے نہیں لگایا، شیرافضل مروت کو اگر آگے چلنا ہے تو اسے صحیح بات کرنی چاہیے۔
یہاں ملک کو بڑے بڑے بحرانوں اور مشکلات کا سامنا ہے پی ٹی آئی میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ جماعت کے بانی نے شیر افضل مروت کو گلے لگایا ہے یا نہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرنے والوں کو اب تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ مختلف معاملات میں انہوں نے میڈیا میں کب اور کیا بات کرنی ہے۔ شیر افضل مروت بھی بولنے کے معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک کامیڈین اور سیاست دان میں فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا احوال شیر افضل مروت ٹیلیویژن پر بھی بتاتے رہے ہیں کیا پاکستان کا یہی مسئلہ رہ گیا ہے۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
تجھے رسوائی کا ڈر ہے نہ آیا کر
بچھڑ جانا ہی بہتر ہے نہ آیا کر
کسی شاداب قریے میں بسا خود کو
یہ دل اجڑا ہوا گھر ہے نہ آیا کر
میرا دْکھ اک دن تجھ کو بھی ڈبو دیگا
بْہت گہرا سمندر ہے نہ آیا کر
گزر جا آئینے جیسا بدن لے کر
یہاں ہر آنکھ پتھر ہے نہ آیا کر
گزرتے ابر کی بھیگی ہوئی بخشش
زمین صدیوں سے بنجر ہے نہ آیا کر
پلٹ جا اجنبی وھموں کے جنگل سے
یہ پر اسرار منظر ہے نہ آیا کر
بکھرتی ریت کیا ڈھانپے گی سر تیرا
وہ خود بوسیدہ چادر ہے نہ آیا کر
خوشی کے رت میں محسن کو منا لینا
یہ فصل دیدہ تر ہے نہ آیا کر