قائد انقلاب نے پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کیلئے برطانیہ سے مدد طلب کر لی ہے۔ اڈیالہ کے عافیت کدے سے غیر ملکی میڈیا آئوٹ لیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم سے یہ مدد طلب کی۔
سیاسی جوتش کے ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ قائد انقلاب کی تمنّا بر آری کر سکے۔ اس سے قبل گولڈ سمتھ فیملی نے بھی پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے کیلئے زلف و ساق کا زور لگایا تھا لیکن بات نہیں بنی۔ قائد انقلاب گزشتہ سال بھر امریکہ سے بھی اپیلیں کرتے رہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی آزادی دلوائے۔ چھ کونہ ستارے کی لابی حرکت میں بھی آئی لیکن امریکہ نے ریاستی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے۔
بہرحال، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف دو ہی ملکوں نے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے، دو تو یہ گئے، تیسرا خود پاکستان ہے گویا 190 ممالک اب بھی باقی ہیں۔ باری باری سب سے مدد مانگی جا سکتی ہے، کوئی ایک تو ان میں سے مل ہی جائے گا جو فی سبیل اللہ صدقہ خیرات پر یقین رکھتا ہو گا۔
______
ملکوں کے علاوہ این جی اوز بھی لاتعداد ہیں۔ ایک معروف ترین این جی او ٹی ٹی پی نام کی ہے۔ اس سے مدد مانگی گئی اور اس نے مدد کی بھی۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی کثیر المنزلہ تاریخی عمارت کو جس جتھّے نے حقیقی آزادی دلوائی تھی، اس میں ٹی ٹی پی کے جانبازوں کی بڑی تعداد تھی۔ میانوالی ایربیس پر جس لشکر نے لشکر کشی کی تھی، ٹی ٹی پی کے لوگ اس میں بھی شریک تھے۔ یہ لوگ افغانستان سے جہازوں کو حقیقی آزادی دلوانے کیلئے خاص قسم کا سیّال مادہ لائے تھے اور دو جہازوں کو قید حیات سے آزاد کروایا تھا۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ عام قسم کے پٹرول یا مٹی کے تیل سے ہوائی جہازوں کو حقیقی آزادی نہیں دلوائی جا سکتی نہ ہی اس مقصد کیلئے روایتی آتش گیر مادہ کام آتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے یہ مجاہدین آزادی لاہور کے کور کمانڈر ہائوس سمیت کئی اور مقامات پر بھی قائد انقلاب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مصروف عمل پائے گئے لیکن موجودہ فسطائی حکومت کی فسطائیت دیکھئے، اس نے نہ صرف یہ مجاہدین فی سبیل اللہ گرفتار کر لئے بلکہ انہیں فتنہ الخوارج قرار دے دیا۔
حقیقی آزادی کے لئے پڑوسی ملک سے چل کر آنے والے مخلص اصلاحات پسندوں کو الخوارج کہنا کھلی فسطائیت ہے۔
______
قائد انقلاب کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن جنہوں نے خواجہ سرا برادری سے مڈبھیڑ کے بعد شہرت دوام پائی تھی، گزشتہ برس ایک بھارتی صحافی اور ’’را‘‘ کے خفیہ عہدیدار کرن تھاپر سے حقیقی آزادی پر سیرحاصل اور مفید مطلب گپ شپ کرتے پائے گئے لیکن یہ گپ شپ وٹس ایپ پر تھی اور وٹس ایپ پر معاملہ وہی شنیدہ مانند دیدہ والا ہوتا ہے چنانچہ ’’بالمشافہ‘‘ والی تشنگی باقی رہی۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ حقیقی آزادی کیلئے یہ بالمشافہ والی منزل بھی سر کر لی گئی اور موصوف نے بھارتی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی سے ایک نہیں پے درپے ملاقاتیں کیں۔
ملٹری اتاشی کسی بھی ملک کا ہو، وہ اپنے ملک کی پرائم خفیہ ایجنسی کا افسر بکار خاص بھی ہوا کرتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں رئوف حسن نے بھارتی ملٹری اتاشی سے جو ’’علمی مباحثے‘‘ کئے، ان کی کچھ تفصیل ہمارے اداروں نے حاصل کر لی ہے، مزید حاصل کئے جانے کی یقینی امید ہے۔ جملہ علمی مباحثوں کے حصول کے بعد شاید انہیں مرتب کر کے کتاب کی شکل بھی دی جائے۔ عنوان کیا ہو گا؟۔ شاید حقیقی آزادی کی منزلیں یا مکالمات حقیقی آزادی ؟۔ بہرحال، شائقین کو انتظار رہے گا۔
______
یاد آیا، حقیقی آزادی کے مرکزی سیکرٹریٹ سے یورپی یونین کو بھی تو خطوط لکھے گئے تھے جن میں استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان سے آنے والی برآمدات پر پابندی لگائی جائے تاکہ حقیقی آزادی کی منزل تک پہنچا جا سکے۔ بدقسمتی سے جب یہ مراسلے موصول ہوئے تو یورپی یونین والے مصروف تھے۔ انہوں نے ان مراسلوں کو اس باسکٹ میں ڈال دیا جو میز کے نیچے ، ایک طرف پڑی ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ جب فرصت ملی، نکال کر پڑھیں گے لیکن ناہنجار صفائی کا عملہ اس باسکٹ کو اٹھا کر لے گیا، میونسپلٹی کے باہر پڑے بڑے صندوق میں اسے خالی کیا اور واپس لا کر رکھ دیا۔
______
حقیقی آزادی پارٹی کیلئے مخلصانہ مشورہ ہے کہ مراسلوں، ڈیجیٹل اپیلوں اور مکالموں سے کام نہیں بنے گا۔ ازحد اور اشد ضروری ہے کہ جیّد قسم کے محبان آزادی از قسم اسد قیصر، زلفی بخاری ، انیل مسّرت، لندن کراچی والے چیکو، شوکت ترین، شیر مروت وغیرہ پر مشتمل ایک وفد تیار کر کے نئی دہلی جانے والی پرواز پر بٹھا دیا جائے۔ اس وفد میں اعتزاز احسن کو ضرور شامل کیا جائے۔ خالصتانی سکھوں کی لسٹوں والے معاملے کے پیش نظر وہ دلّی والوں میں ازحد نیک مطلوب ہیں۔
اور ہاں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نئی دہلی سے ایک براہ راست پرواز تل ابیب بھی جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ منزلِ ماردرنیست
______
پختونخواہ کی حکومت نے ان چینی سیّاحوں کو صوبے میں داخل ہونے سے روک دیا جو پنجاب کی سیّاحت کے بعد وہاں جانا چاہتے تھے۔
سیّاحوں کے پاس پاکستان کا ویزا تھا۔ انہیں کسی بھی صوبے میں داخلے سے نہیں روکا جا سکتا۔ پھر یہ واقعہ کیونکر ہوا؟
بظاہر یہ معاملہ غلط فہمی کا نتیجہ لگتا ہے۔ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو یہ شک ہوا ہو گا کہ یہ سیّاح نہیں ہیں، سیّاحوں کے بھیس میں چینی انجینئر ہیں جو سی پیک پر کام کرنا چاہتے ہیں۔
اہل نظر اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سی پیک حقیقی آزادی کے راستے کی بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے جس کا مکّو ٹھپنے کیلئے قائد انقلاب 2014ء میں ایک عظیم الشان تاریخ شکن دھرنا دے چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اسی بڑی رکاوٹ کی بیخ کنی کیلئے سرگرم رہے ہیں۔
بس اسی غلط فہمی کے باعث گنڈاپور نے ان سیّاحوں کو روکا۔ ورنہ ان کی وفاق دوستی اور حب الوطنی تو ضرب المثل ہے۔
______
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ قائد انقلاب کا یہ خدشہ درست ثابت ہو سکتا ہے کہ انہیں ملٹری ٹرائل کے حوالے کر دیا جائے۔
’’ڈپلومیٹک‘‘ بیان ہے، امکانی اور خدشاتی زبان میں بات کی ہے ورنہ تو صدیقی صاحب کو اس تاریخ کا بھی پتہ ہے جب یہ واقعہ ہونا ہے۔