جس روز سے میاں چنوں کے ایک متمول گھرانے کے چشم و چراغ اور واپڈا کے گریڈ 18 کے افسر ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس برائے 2024ء میں جیولن تھرو کا سابقہ ریکارڈ توڑ کر سونے کا تمغہ جیتا ہے‘ وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں‘ وفاقی و صوبائی حکومتوں‘ سپورٹس تنظیموں‘ افواج پاکستان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے ارشد کی بھرپور حوصلہ افزائی‘ تہنیتی پیغامات اور بھاری انعامات وصول کرنے کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ حکومتی سطح پر ارشد ندیم کی اس غیرمعمولی کامیابی پر ان کے شہر اور علاقے میں عرصہ دراز سے رکے متعدد ترقیاتی منصوبوں کو فوری مکمل کرنے کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور سپورٹس اداروں کی جانب سے جو انتہائی بھاری رقوم بطور انعام ارشد کو دی جا چکی ہے‘ یا دیئے جانے کا اعلان ہو چکا ہے‘ اس پر دانستہ طور پر روشنی اس لئے بھی نہیں ڈالنا چاہتا کہ پاکستان کی سپورٹس تاریخ میں کسی گولڈ میڈلسٹ کھلاڑی کو پہلی مرتبہ اتنا کچھ دیا جا رہا ہے جس کے بارے میں ارشد ندیم نے شاید خود بھی کبھی نہیں سوچا ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ارشد ندیم نے نیزہ بازی میں بلاشبہ وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کا پاکستان کی اتھلیٹکس میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ اور کھیلوں سے گہری دلچسپی رکھنے والی شخصیات کا رجحان ویٹ لفٹنگ‘ باکسنگ‘ کرکٹ‘ ہاکی اور سکوائش میں اس لئے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان مذکورہ کھیلوں میں گولڈ‘ سلور اور کانسی کے تمغات حاصل کر چکا ہے جبکہ والی بال‘ باسکٹ بال‘ فٹ بال‘ ٹینس‘ بیڈمنٹن اور اتھلیٹکس میں سو میٹر‘ کراس کنٹری‘ ہرڈلز‘ ڈسکس تھرو‘ شاٹ پٹ‘ ہاف سٹیپ اور ہائی جمپ‘ پول واٹ‘ رسہ کشی‘ کبڈی‘ باکسنگ‘ ریسلنگ اور نیزہ بازی کو ڈیپارٹمنٹل سپورٹس تک محدود کر دیا گیا ہے۔ نیزہ بازی چونکہ ایک ٹیکنکل کھیل ہے اس لئے بعض دیگر کھیلوں کی طرح ماضی میں اسے بھی اس طرح پروموٹ نہیں کیا گیا۔ جس طرح بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ چائنا اور دیگر یورپی ممالک میں اس کھیل کو متعاف کروایا گیا۔ ہمارے ہاں مخصوص کھیلوں میں ’’ینگ ٹینلنٹ‘‘ تلاش کرنے کیلئے کوچز کا چونکہ سرے سے تصور ہی موجود نہیں اس لئے ہمارے بیشتر ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کی ٹیکنکل لیول پر ٹریننگ اور کوچنگ نہ ہونے کی بنیاد پر ہم بین الاقوامی سطح اور عالمی معیار کے مطابق کھلاڑی پیدا نہیں کر پا رہے۔ ارشد ندیم کی خوش قسمتی کا بڑا پہلو یہی ہے کہ اسے حکومتی خرچ پر نیزہ بازی کی ٹریننگ دلوائی گئی اور کھیل کے ٹیکنیکل کوچ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میں خود بھی باسکٹ بال کا چونکہ کھلاڑی رہ چکا ہوں‘ اس لئے بخوبی آگاہ ہوں کہ پروفیشنل کوچ کی مہارت کے کھلاڑی اور اس کے کھیل پر کس قدر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نیزہ بازی کے بارے میں عام شائقین کی معلومات کا دائرہ کار انتہائی محدود رہا مگر! ارشد ندیم کے گولڈ میڈل نے اس کھیل کو اب کرکٹ اور ہاکی کے معیار پر لاکھڑا کیا ہے۔
ارشد ندیم نے جو کارنامہ سرانجام دیا‘ اس مقام تک وہ کیسے پہنچا‘ حکومت کی جانب سے اسکی ٹریننگ میں کس حد تک سرپرستی کی گئی؟ ارشد ندیم کا تعلق کیا واقعی ایک غریب گھرانے سے ہے؟ والد محترم کو کن وجوہات کی بناء پر تیسی کانڈی کا سہارا لینا پڑا۔ ان سوالات میں مجھے اس لئے بھی نہیں اُلجھنا کہ ہمارے معاشرے میں غریب‘ دیہاڑی دار اور سفید پوشی سے دوچار افراد کو اپنی تعلیم اور کھیل میں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کے بہت ہی کم مواقع فراہم کئے جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں کھیلوں کے اعلیٰ معیار اور مقابلوں میں آج بھی وہ پیمانہ موجود نہیں جس سے ایک بہترین کھلاڑی کا چنائو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر عمل میں لایا جاسکے۔ مجھے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے قومی کھیلوں میں عالمی معیار کے متعدد گولڈ میڈلسٹوں کی اعلیٰ مہارت دکھانے کے باوجود حکومتی سطح پر اس طرح حوصلہ افزائی نہیں کی گئی جو ان کا بنیادی حق تھا۔
ارشد ندیم کا تعلق چونکہ میاں چنوں سے ہے اور لندن میں میرے چاہنے والے معروف شاعر ار معروف سماجی شخصیت برادرم احسان شاہد چودھری (بی ای ایم) کی سرزمین بھی میاں چنوں ہے‘ اس لئے انہوں نے بتایا کہ ارشد سے انکے محلے داری کے تعلقات 30 برس پر محیط ہیں جس پر انہیں فخر ہے۔ اسی طرح میری انتہائی قابل احترام ممتاز کاروباری شخصیت حاجی محمد رفیق آف راچڈیل بھی اپنے اس شہر کے اولمپئن ارشد ندیم کی عالمی کارکردگی پر انتہائی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کیلئے انعاتمات کی رقوم کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکومت نے میاں چنوں میں کھیلوں کی اکیڈمی بنانے کا عندیہ بھی دیا ہے جس پر یقیناً حکومت کو بھاری رقم خرچ کرنا ہوگی۔ مگر بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو کھیلوں کے فروغ کیلئے ہر شہر میں اکیڈمیوں کا قیام ناگزیر ہے۔ نیزہ بازی سمیت دیگر ایونٹس کیلئے بھی اب حکومتی سرپرستی درکار ہوگی تاکہ ارشد ندیم جیسے مستقبل کے بہترین کھلاڑی تیار سکیں۔ ملک میں کھیلوں کے اعلیٰ میعار‘ کھلاڑیوں کی تربیت اور کامیابی پر ان کیلئے بھاری انعامات کے حوالہ سے اپنے انتہائی قابل احترام ’’آرتھوپیڈک سرجن‘‘ دوست ڈاکٹر عدنان مجید سے بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ہمارا قومی المیہ ہے کہ کھیلوں میں بھی ہم نے سیاست کو شامل کرلیا ہے۔ کسی بھی عالمی مقابلے میں گولڈ‘ سلور یا برونز تمغہ حاصل کرنے والے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کیلئے سپورٹس بورڈ‘ سپورٹس تنظیمیں اور حکومت کو کھلاڑی کی مالی امداد ضرور کرنا چاہیے کہ ہر تمغہ وطن عزیز کیلئے ہوتا ہے۔ قدرے توقف کے بعد بولے‘ افسوس) کھلاڑیوں کو دیئے جانیوالے مالی انعامات کے اعلانات کی فہرست بعض اوقات اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ اس میں سے بیشتر انعامات محض ’’اعلانات‘‘ تک ہی محدود رہتے ہیں جسے کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی محسوس کرتا ہے۔
ارشد ندیم کی غیرمعمولی حوصلہ افزائی
Aug 22, 2024