تبصرے اور تجزے ایسے ہی نہیں کیئے جاتے، اس کیلئے تاریخ کے اوراق کھنگالنے پڑتے ہیں۔ آجکل اس خدشہ کا بڑی شد و مد سے اظہار کیا جا رہا ہے کہ ! کیا آنے والے چند مہینوں میں اپنے پاکستان میں بھی بنگلہ دیش طرز پر کوئی ایپی سوڈ تو نہیں ہونے جا رہا۔ تو اس سے پہلے کہ اس خدشہ پر اپنی کسی رائیکا اظہار کیا جائے، تاریخ سے 1975ء کے اوراق کھولتے ہیں، یہ اسی سال کی 15 اگست کی تاریخ ہوتی ہے جب بنگو بندھو کہلوانے والے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن جو اس وقت اپنے ملک کے صدر ہوتے ہیں اْنھیں انکے خاندان کے بیشتر افراد ماسوائے حسینہ شیخ اور ریحانہ شیخ، قتل کر کے انکا اقتدار ختم کر دیا جاتا ہے اور یوں اس ملک بنگلہ دیش میں سازشوں اور بے یقینی کا ایک لامتناہی دور شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی 1975ء کا سال ہے 1971ء میں پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والی اور آئرن لیڈی کہلانے والی بھارتی وزیراعظم الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی وجہ سے جب اپنی پارلیمانی سیٹ کھو بیٹھتی ہے تو پھر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتی ہے اور یوں اسی سال اس ملک میں بھی ہنگاموں اور بے یقینی کی فضاء ہر طرف اْمڈ اتی ہے اور یوں 1977ء میں اندرا گاندھی کا تین ٹرمز پر مبنی گیارہ سالہ دور اقتدار اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ اگست 1975ء میں بنگلہ دیش سے چلنے والی بے چینی کی یہ لہر بھارت سے ہوتی ہوئی 1977ء میں پاکستان کا رْخ کرتی ہے 7 مارچ 1977ء کو ہونے والے الیکشن کس طرح متنازعہ حیثیت اختیار کرتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے طلسماتی شخصیت کا مالک اور اپنے وقت کا مقبول ترین لیڈر صرف پانچ ماہ کے اندر اندر پانچ جولائی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کو گْھپ اندھیروں میں دھکیلنے کے بعد تبدیلی کی ان لہروں کا اگلا رْخ ایران ہوتا ہے اور 1978ء میں اپنے وقت میں چھٹی عالمی قوت کا خواب دیکھنے والا ملک اپنی تاریخ کے سنگین ترین مظاہروں کی نذر ہوجاتا ہے اور یوں یہاں اپنے اقتدار کی گولڈن جوبلی منانے والا شاہ ایران محمد رضا پہلوی خود ساختہ جلاوطنی کے سفر پر اسطرح روانہ اور نگر نگر مستقل سکونت کی تلاش میں دھکے کھاتا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں یہ انجام بھی ایک تلخ سبق کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے ساتھ 1978ء کا یہ وہی وقت ہوتا ہے جب افغانستان میں سردار داؤد بھی اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور غیر طبعی موت سے ہمکنار ہوتا ہے۔
اس بیان کردہ مختصر تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں بہت سے غور طلب پہلو اْجاگر ہوتے ہیں جو راج نیتی کا کھیل کھیلنے والوں کی جانکاری کے لیے بہت ضروری ہیں۔ جغرافیائی نقطہ نظر کی بنیاد پر بعض دوست ایران اور افغانستان کو اس خطہ میں شمار کرنے پر معترض ہو سکتے ہیں لیکن صدیوں پرانی تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کسی صورت اور کسی بھی حالت میں اس برصغیر پاک و ہند سے علیحدہ نہیں رہے۔ چلیں ان دو ممالک ایران اور افغانستان کو چھوڑ کر اپنی ساری توجہ صرف اور صرف برصغیر پر ہی مرکوز کرتے ہیں۔ اس خطے کے مزاج کا سب سے پہلا رواج جو تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں کی قدر میں بہت تنگ نظر ہوتے ہیں۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی تو دور کی بات ، کوتاہی سے بھی صرف نظر نہیں کرتے۔ شیخ مجیب بنگالیوں کا فادر آف نیشن، اندرا گاندھی بھارتیوں کے لیے دو قومی نظریہ پر کاری ضرب لگانے والی ان کی ہیرو اور پاکستان میں ایٹمی پروگرام کے موجد اور پاکستان کی بقاء کو ایک نئی زندگی دینے والے ذولفقار علی بھٹو۔ تینوں کی غیر فطری موت راقم کی اس رائے کی تصدیق ہے کہ اس خطے میں کسی بھی لیڈر کی معمولی سی کوتاہی بھی ناقابل معافی ہوتی ہے۔ دوئم ہم بیرونی پروپیگنڈہ کا بہت جلد شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر ہم اغیار کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ سوئم دیرپا اور ایبسولیوٹ اقتدار کی خواہش ہی دراصل اس خطے کے حکمرانوں کی اقتدار سے غیر فطری رخصتی کا سبب بنتی ہے۔ معاملات کی گہرائی میں جائیں تو اور بھی کئی نقاط ہیں جو توجہ کے طلبگار ہیں لیکن سردست اب اس طرف آتے ہیں کہ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں جو اوپر بیان کیئے گئے ہیں اس طرح کی کوئی مماثلت پائی جاتی ہے جیسے 1975ء میں بنگلہ دیش میں تبدیلی کی جو لہر چلی تھی اور اس کی دیکھا دیکھی 1977ء میں پاکستان میں بھی وہی کچھ ہوا جو بنگلہ دیش اور بھارت میں ہوا تو اہل فکر کی اس بات سے فرار ناممکن نظر آتا ہے کہ ماضی کی طرح ان دنوں بھی اس خطہ کی سیاسی اشرافیہ میں اقتدار اور مطلق الاجارداری کا رواج اسی طرح قائم ہے جیسے مجیب، اندرا اور بھٹو کے دلوں اور ذہنوں پر سوار تھا۔ حسینہ واجد کو دیکھ لیں۔ پندرہ سال سے ہر جبر کے ذریعے عوامی آواز کو دبایا جا رہا تھا۔ مودی کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی تاثرات پائے جاتے ہیں۔ رہی بات اپنے ملک کی تو فروری 2024ء سے اب تک مختلف اداروں کے درمیان ہر روز جو رسہ کشی خبروں کی زینت بن رہی ہے اس پر راقم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لہٰذا اس خطہ کی روایات اور ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس امکانی فتنہ کی طرف توجہ تو بنتی ہے۔ دوسری بات جو اہل دانش، اہل فکر بلکہ ہر فرد کی زبان پر ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں دیکھتے ہی دیکھتے کوٹہ سسٹم ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر گیا کیا ہمارے ملک میں آئی پی پیز کا مسئلہ جسے آجکل عرف عام میں فتنتہ الفساد کہا جا رہا ہے ایسی صورت اختیار نہیں کر سکتا؟۔ اور پھر جب اغیار اور دشمنوں کی ساری توانائیاں اس بات پر مرکوز ہوں کہ انھوں نے سی پیک رکوانا ہے اور پھر ہمارا یہ مزاج بھی ہو کہ ہم نے فی الفور بیرونی پروپیگنڈہ سے متاثر بھی ہو جانا ہے، یقین نہ آئے تو ‘‘عزم استحکام’’ کے معاملے پر اپنے روئیے ہی دیکھ لیں تو پھر ان حقیقتوں کی روشنی میں کچھ خدشات کا جنم خارج الوجود قرار نہیں دیا جا سکتا۔