بجلی بلز کے مسئلے پر سندھ اور پنجاب میں ٹھن گئی ، خیبر پی کے اور بلوچستان خاموش
حکومت پنجاب کی طرف سے بجلی بل فی یونٹ میں کمی کے بعد اب باقی صوبے کے لوگو ں نے بھی اپنے اپنے وزرائے اعلیٰ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے جو اب خود منہ کھولے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کریں۔ یوں پنجاب حکومت کی ایک ہی چال نے بازی پلٹ دی اب اس کے جواب میں علی امین گنڈا پور تو مکمل چپ سادھے ہیں گویا کاٹو تو لہو کی بوند نہ نکلے جبکہ مراد علی شاہ کو کسی صورت آرام نہیں آ رہا۔ انہوں نے عارضی ریلیف کے جواب میں سندھ اور پنجاب کے ہسپتالوں کا موازنہ شروع کر کے نئی بحث کی راہ ہموار کر دی۔ اب وہ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں کو پاکستان کے سب سے بہتر اور مفت علاج فراہم کرنے کا ایوارڈ دے رہے ہیں جہاں مفت علاج ہوتا ہے، جو پنجاب میں بھی دستیاب نہیں۔ اسی لیے ہزاروں مریض وہاں سے علاج کے لیے سندھ آ رہے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یا شرجیل میمن کے بیانات کی حد تک تو ایک خوبصورت احساس جنم لیتا ہے۔ حقیقت کیا ہے اس کی تلخی کا فیصلہ ہم سندھی عوام پر چھوڑتے ہیں جو بہتر جانتے ہیں کہ سندھ میں کس قسم کی اور کتنی طبی سہولتیں مفت ملتی ہیں۔ یوں اب دو حلیف پارٹیوں میں لفظی جنگ تیز ہو گئی ہے۔ کچھ معاملہ فہم وزیر اور مشیر معاملہ سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مراد شاہ نے کہا کہ عارضی سہولت کے بعد سب پھر پڑھیں گے۔ ہم یہ نہیں کر سکتے ہم سیلاب متاثرین کے لیے مکانات بنا رہے ہیں۔ لوگوں کو اگر بھول نہ گیا ہو تو یہ وہی 2022ء کے سیلاب متاثرین ہیں جن کے لیے بنائے جانے والے مکانات ابھی تک زیر تعمیر ہی ہیں کہ اب نیا سیلاب ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے خیبر پی کے والے علی امیں کیا انداز اپناتے ہیں۔ شاید ان کی ساری توجہ 22 اگست کے جلسے پر ہے اور وہ دوسری طرف توجہ دینا نہیں چاہتے۔ اب تو وزیر اعظم نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ہر صوبہ ایسا کر سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے پنجاب کو کوئی مالی امداد نہیں دی۔ وہ اپنے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کر کے ریلیف دے رہی ہے تو باقی صوبے بھی دے سکتے ہیں۔عوام کو اس بحث سے کیا لینا دینا۔ کہتے ہیں اندھا کیا چاہتا ہے دو آنکھیں اور بھوکا چاہتا ہے روٹی۔ انہیں بس ریلیف ہی ڈھارس دے رہا ہے کہ چلو کچھ تو بجلی بلوں میں کمی آئے گی اور دوسرے صوبوں کے لوگ بھی ایسے اقدامات کے منتظر ہیں۔
کراچی میں مدہوش خاتون کی گاڑی کی ٹکر سے باپ اور جوان بیٹی جاں بحق
گزشتہ دنوں کراچی میں پیش آنے والے افسوسناک حادثے میں ایک پراڈو نے جسے مبینہ طور پر نشے میں دھت خاتون چلا رہی تھی باپ بیٹی موٹر سائیکل سواروں کو کچل کر مار دیا۔ موقع پر لوگوں نے خاتون کو نکالا تو پتہ چلا وہ مدہوش ہیں جبکہ موٹر سائیکل والا بزرگ اپنی جوان بیٹی سمیت جاں بحق ہو چکا تھا۔ بوڑھے شخص نے اپنی اس چھوٹی بیٹی کو محنت سے پال پوس کر ایم بی اے کرایا تھا جو سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں لیے اب منوں مٹی تلے سو چکے ہیں۔ یہ مدہوش خاتون کوئی عام شخصیت نہیں ایک بااثر صنعتی گروپ کے چیئرمین کی بیگم ہیں جن کے پاس پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا۔ اب وہی حیلہء بپرویزی۔ بااثر خاندان ثابت کر رہا ہے کہ خاتون ذہنی مریض ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ پولیس نے ابھی تک ثابت قدمی دکھاتے ہوئے مقدمہ تو درج کر لیا ہے گرچہ ہاتھ ہلکا ہی رکھا ہے۔ مگر نہ ہونے سے کچھ ہونا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اب یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ اس کیس میں انصاف کی عملداری کے تقاضے کیسے نبھاتی ہیں۔ کم از کم اگر حق و انصاف پر ہی عمل ہو جائے تو مرنے والوں کے لواحقین کی دادرسی ہی ہو جائے گی۔ ورنہ دیکھ لیں کتنی پھرتی سے خاتون کو ذہنی مریضہ ثابت کر کے ہسپتال سے سرٹیفکیٹ بھی جاری کروا لیا گیا جبکہ اس کام پر عام آدمی کے کئی کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ کس کس کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ کہاں کہاں مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ تب جا کر کچھ ہوتا ہے۔ میڈیا پر ویڈیوز میں خاتون کی حالت بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں بااثر گھروں کی خواتین ہوں یا مرد ملازموں کو قتل کریں ، زیادتی کریں، غلام بنا کر رکھیں ، زندہ جلا دیں آج کتنے سفاک ملزمان کو سزا ملی ہے۔ اس کا فیصلہ عوام خود کر لیں۔ ہر قاتل خواہ بیوی کا ہو یا گرل فرینڈ کا یا ملازمہ کا۔ آسانی سے ذہنی مریض ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انصاف کا منہ چڑاتا ہے کہ کر لوجو کرنا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے باعث لوگ آہستہ آہستہ ان حادثات کو بھول جاتے ہیں یہی ملزمان کے گھر والے چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی نیا سانحہ جنم لیتا ہے اور اک نیا شور سننے کو ملتا ہے۔
اڈیالہ میں دوران سماعت بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں توتکار
گزشتہ روز جیل میں کیس کی سماعت کے دوران جب کپتان کا بیان جاری تھا اچانک حصہء خواتین میں شور بلند ہوا۔ جس پر بانی پی ٹی آئی کو تین مرتبہ اپنا بیان روکنا پڑا۔ بعد میں پتہ چلا کہ خواتین کے حصے میں نند اور بھاوج میں کسی خاتون وکیل کے حوالے سے بحث چھڑ گئی تھی۔علیمہ خان اس وکیل کے خلاف جبکہ بشریٰ بی بی اور ان کی بیٹیاں وکیل کے حق میں بول رہی تھیں۔ اس شور شرابے میں بشریٰ بی بی کی چھوٹی نواسی گھبرا کر رونے لگیں۔ بعدازاں معاملہ رفع دفع ہوا تو عدالتی کارروائی مکمل ہوئی۔ اس واقعہ سے ناقدین کو محسوس ہو رہا ہے کہ کپتان کے اہلخانہ طویل عدالتی کارروائیوں اور جیل میں قیدہونے کی وجہ سے اعصاب پر قابو نہیں رکھ پا رہے۔ یہ بات خود بانی کے لیے خیر کی نہیں ہو سکتی وہ پہلے ہی فیض اور ثاقب نثار کے گرداب میں پھنستے جا رہے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ فیض حمید کو ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر خطرے کی کوئی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کے وکلا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ ان کے بانی کا معاملہ ملٹری کورٹس میں نہ بھیجا جائے کیونکہ سویلین کا کورٹ مارشل چہ معنیٰ دارد۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر سویلیں کا بھی اپنی فوجی تنصیبات پر حملہ چہ معنی دارد۔ کسی کو پارٹی یا اپنی قیادت سے محبت ہوتی ہے۔ مگر وطن کی محبت ان سب پر غالب ہوتی ہے۔ کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا کہ ناموس وطن پر آنچ آئے۔ جس ملک کی فوج کا تشخص برباد ہوا اس ملک میں عراق اور لیبیا کی طرح انارکی جنم لیتی ہے اور بسے بسائے ملک اجڑ جاتے ہیں۔ یادرکھنے کی بات یہی ہے کہ گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے۔
اودھے پور میں طالب علموں کے جھگڑے نے ہندو مسلم فسادات کی شکل اختیار کر لی
اودھے پور راجھستان کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں مسلمان قدرے خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور یہی بات انتہا پسند ہندوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ علاوہ ازیں راجستھان میں مذہبی نرم رویوں کی وجہ سے ہندو مسلم کلچر تقریباً مکس ہو گیا ہے۔ ان کے بہت سے رسوم و رواج یکساں نظر آتے ہیں۔ مگر اب گجرات، ممبئی، احمد آباد، سورت، د ہلی کی طرح یہاں کے خوشحال مسلم آبادی والے کاروباری و رہائشی علاقوں میں بھی ایک منظم سازش کے تحت دنگا فساد اور پھر اس کی آڑ میں ہندو مسلم فسادات کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ گزشتہ سکول میں 9 9 ویں کلاس کے دو طلبہ میں جھگڑا ہوا۔ معمولی بات تھی مگر اسے سرکاری سطح پر اچھالا گیا۔ ان نوعمر مسلم طالب علم اور اس کے والد کو پولیس پکڑ کر لے گئی اور بعدازاں ان کے گھر کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر کی مدد سے گرایا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ آخر کب تک کوئی برداشت کرے جب ہندو غنڈو ں نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلاوجہ حملے شروع کئے تو پھر وہی
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
مسلمانوں نے بھی اپنے دفاع کے لیے جو مناسب سمجھا کیا۔ جس کے بعد سارا شہر فسادات کی زد میں آیا۔ درجنوں گاڑیاں، املاک اور سامان نذر آتش ہونے لگا تو پولیس نے آ کر الٹا مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں شروع کر دیں کیونکہ پولیس ہو یا پیراملٹری فورسز سب ہندو غنڈوں کے لیے ڈھال بن کر مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں جو اطمینان سے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اصل وجہ وہی تکلیف ہے جس سے ہندو توا کی حامی جماعتوں اور حکمرانوں کے کلیجے جل بھن کر کباب ہوتے ہیں کہ مسلمان خوشحال کیوں ہیں۔
٭٭٭٭٭
جمعرات، 16صفرالمظفر، 1446ھ22اگست 2024
Aug 22, 2024