لیسکو چیف بجلی چوری روکنے میں ناکام

ندیم بسرا
ملک میں آئے روز بجلی کی بڑھتی قیمتیںجہاںشہریوں کے لئے آزمائش بنی ہوئی وہیں ملک بھر کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نااہل سربراہان بجلی چوری کو روکنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں جس سے قومی خزانے میں روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہورہا ہے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سمیت وزیر توانائی اویس لغاری اس پر درجنوں میٹنگز بھی کرچکے ہیں اور سیکرٹری پاور سمیت تمام ڈسکوز چیف ایگزیکٹوزکو وارننگ بھی دے چکے ہیں مجال ہے کہ چیف اگزیکٹوز نے اس پر دھیان دیا ہو یاان کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔سرکاری کاغذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے جعلی اعدادوشمار وزیراعظم آفس بجھوا دئے جاتے ہیں جس کو پرکھنے کے لئے جو ایس او پیز بنے ہوئے ہیں ، بجلی کی کمپنیوں کے سربراہان اس طرف آنے ہی نہیں دیتے ۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی جس کا قیام سیکشن 3 کے ذریعے 1997 میںلایا گیا جس کا مقصد پاکستان میں صارفین کو برقی توانائی کی فراہمی کے لیے محفوظ، قابل اعتماد، سستی، جدید، موثر اور مارکیٹ سے چلنے والے ماحول کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا اور اس کی پیروی کرنا اور وسیع اقتصادی اور خدمات فراہم کرنے والوں کے مفادات کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے اور تمام تقسیم کار کمپنیوں کو ٹارگٹ دینا اور ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے وہ بھی اس میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے ۔یہاں بات کرتے ہیں پاکستان کی بڑی کمپنیوں میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)کی،جہاں پر اندیر نگری چوپٹ راج کا معقولہ بلکل فٹ نظر آتا ہے ۔ چیف ایگزیکٹو لیسکوشاہد حیدر جو گزشتہ ایک برس سات ماہ سے اس سیٹ پر کام کررہے ہیںاور لیسکو تقریبا پونے دو برس سے ان کی کمزور انتظامی گرفت اور غلط فیصلوں سے مسلسل خسارے میں جارہی ہے ۔موجودہ صورت حال میں لیسکو میں بجلی چوری کے بڑھتے واقعات اور کم ہوتی ریکوری کمپنی کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ لیسکو میں اپریل سے جولائی2024 کے چارماہ میں بجلی چوری کی مد میں 60 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے اپریل،مئی جون میں لاسز کی مد میں نقصان 50 ارب روپے تھا ،جولائی 2024 میں اس میں مزید 10ارب روپے کا نقصان ہوا ہے یوں کمپنی کو ہونے والے نقصان کا ندازہ ساتھ ارب روپے تک کا ہے ۔نیپرا نے لیسکو میں لائن لاسز کے لئے بنچ مارک ساڑھے 8  فیصد سے 10فیصدتک رکھا ہوا ہے گزشتہ برس لیسکو لے لائن لاسز 11 اعشاریہ آٹھ فیصد تھے ،جو اب بڑھ کر 15اعشاریہ 8 فیصد تک پہنچ چکے ہیں یوں لائن لاسز کی مد میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے یوں چار ماہ میں کمپنی کو 60 ارب روپے تک کا خسارہ ہوا ہے جس میں مزید بڑھنے کا اندیشہ بتایا جارہاہے ۔اب اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے لیسکو نے غریب اور مجبور لاچار صارفین سے اووربلنگ کرنے کا پورا منصوبہ بنا لیا ہے۔صارفین جو پہلے ہی بڑھتی قیمتوں کا شکار ہیںان پر دبائو مزید بڑھ جائے گا ۔لیسکو میں بجلی چوری پر ڈالی گئی ڈی ٹیکشن رقم 40 فیصد سے کم کی ریکوری ہوئی ہے ۔لیسکو میںبجلی چوری کو روکنے کے لئے(کنڈا سسٹم )کے لئے اے بی سی (ABC) کیبل جو پہلے ہی لگائی جانی چاہیے تھی اس پر توجہ نہیں دی گئی،اے ایم آئی (AMI)ٹینڈرز کو بار بار روکا گیا اور ابھی تک سست روی کا شکار ہے حالانکہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)،حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی(حیسکو) اور ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی (میپکو)جیسی کمپنیاں اے ایم آئی پراجیکٹ پر کام کا آغاز کرچکی ہیں ،گوجرانوالہ میں انجینئرز کو ہیلتھ انشورنس جیسی سہولیات دی جا چکی ہیں جبکہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے  انجینئرز کی مراعات باقی کمپنیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب نے پورے صوبے میں 14روپے فی یونٹ کمی کرنے کا اعلان کررکھا ہے لاہور (پنجاب )جس کون لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے وزیراعظم شہباز شریف ،وزیراعلی پنجاب مریم نواز جو لاہور سے منتخب ہوئی ہیں یہاں لیسکو کمپنی کا خسارہ چار میں ساٹھ ارب روپے ہونا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔لیسکو میں جہاں انتظامی کمزور گرفت کی بات کی جائے تو لیسکو میں یہ باتیں زبان زدعام ہیں کہ کمپنی کو اے ،ایل ،ایم ،لائن مین اورپرائیوٹ لوگ ہی چلا رہے ہیں ایک الزام یہ بھی لگایا جارہا ہے کہ لیسکو کی تیسری سرکل میں ایم اینڈ ٹی کااسسٹنٹ لائن مین محمد قیصر ،بلال کالونی سب ڈویژن کا محمد بلال ،کاہنہ کا ریٹائرڈ لائن مین میاں طارق اور کچھ پرائیویٹ لوگ چیف ایگزیکٹو لیسکو شاہد حیدر سے پوسٹنگ ٹرانسفر،شوکاز کلئیر نس سمیت ہر طرح کا کام کرواتے ہیں اور ان کے مشورے سے سب کام کئے جارہے ہیں ۔اس بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مختلف بے ظابطگیوں میں ملوث ،الزامات ثابت ہونے پر ماضی قریب میںانکوائریوں کے بعد 16 افسران(ریونیو افسر،ایس ڈی او) شامل تھے انہیں نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا چیف ایگزیکٹو لیسکو نے اپنا استحقاق استعما ل کرتے ہوئے (اپیلوں) بحال کردیا گیا تھا وہ افسران آج بھی پر کشش سیٹوں پر کام کرکررہے ہیں ۔اس قسم کے کئی سنگین الزامات کے باوجودوزارت پاور ،لیسکوکے بورڈ آف ڈائریکٹرز وہ بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔لیسکو کے سابق بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی کسی بھی قسم کی توجہ نہیں دی اور پسند ناپسند کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسلام آباد کو اندھیرے میں رکھا ۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف بجلی کی کمپنیوں میں نااہل افسران کو نکالنے اور کرپٹ ،بد عنوان افسران کے خلاف ایکشن لینے پر کئی بیانات اور اجلاس کرچکے ہیں ،مگر ابھی تک لیسکو سمیت دیگر کمپنیوں میں کوئی بڑا کریک ڈائون شروع نہ ہوسکا ہے۔ملک میں جہاں پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کئی برسوں سے ہمیںجکڑھے ہوئے ہیں اور ہر ماہ کپیسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں وہاں اداروں کے کے نااہل سربراہان ملکی خزانے پر بوجھ بنتے ہیں اگر وزیراعظم ،وزیر توانائی بجلی کی کمپنیوں میں اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو ان کی کارکردگی کو ضرور مانیٹر کیا جانا چاہئے کیونکہ نااہل انتظامیہ نہ صرف ملکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہیں بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بن چکی ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن