ایم وقار عباسی
waqar051@gmail.com
سا بق انٹیلی جنس چیف سمیت دیگر سنیئر آفیسرز کی گرفتاری اور فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے سے ملک کے سیاسی افق پر ایک بھونچال برپا ہے کچھ سیاسی جماعتیں اس گرفتاری پر مستقبل کے سیاسی ڈھانچے اور حکومتی خدوخال پر روشنی ڈال رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص عمران خان اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ جنرل فیض کی گرفتاری دراصل ان کے گرد حصار تنگ کرنے کی ایک کڑی ہے عمران خان اپنے بیانات میں برملا طور پر اس بات کا اظہار کرچکے ہیں آنے والے چند ہفتوں میں ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ انہیں سزادلوائی جاسکے۔ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت بھی اس گرفتاری کے باعث کافی دفاعی پوزیشن پر ہے اور انہیں آنے والے دنوں میں ایک بار پھر سے سخت کریک ڈاون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے حکمران اتحاد اس گرفتاری کو پی ٹی آئی پر کسے جانے والے شکنجے سے تعبیر کررہے ہیں اور سکھ کا سانس لے رہا ہے کہ عمران خان کو فوری طورپر ریلیف ملنے والے امکانات محدود ہورہے ہیں جو ان کے اقتدار کو دواہم بخشے گا۔تاہم ادھر عمران خان اڈیالہ کی جیل سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کے لیے انہوں نے باقاعدہ درخواست جمع کروائی ہے یہ انتخاب 28اکتوبر کو ہونا ہے چانسلر کی تقرری دس سال کے لیے ہوتی ہے جس کی حیثیت ایک سفیر کی ہوتی ہے اور اسے پوری دنیا اور بالخصوص برطانیہ میں یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔ عمران خان اس انتخاب میں آن لائن ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں سیاسی حلقے عمران خان کے اس الیکشن میںحصہ لینے کو بھی ایک موو(چال) قرار دے رہے ہیں کہ اس میں کامیابی کی صورت میں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت میں اپنے لئے ہمدردی سمیٹ سکیں گے اور ان پر عائد ہرقسم کی سفری پابندیاں بھی ختم کروائی جاسکیں گی۔ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی متعدد کیسوں کے باعث عدالت عظمٰی بھی سخت تنقید کی زد میں ہے سپریم کورٹ میں جاری مبارک ثانی ، مونال نیشنل پارک اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی نظر ثانی کیسوں کی بازگشت یومیہ بنیادوں پر ہرفورم پر ہورہی ہے مبارک ثانی کیس پر عوامی و مذہبی حلقوں میں مسلسل بحث ہورہی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا بھی اس پر رائے آئی ہے اور سپریم کورٹ میں یہ کیس دوبارہ نظر ثانی میں پہنچ چکا ہے یہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے جس پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو تحمل اور دانش کیساتھ ردعمل دینا ہو گا بصورت دیگر میں ملک میں امن و امان کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ مونال نیشنل پارک ایریا کیس سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے پر سخت تنقید اور کاروباری حلقوں کی پریس کانفرنسوں نے چیف جسٹس کو برہم کررکھاہے عدالت کے خلاف مہم پر اداروں کی لے دے ہورہی ہے جبکہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر بھی الیکشن کمیشن کی نظر ثانی سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے جو انتہائی ہم ہے۔ملک میں جاری اس افراتفری ماحول میں مذہبی حلقوں کی نمائندگی کرنے والے دو بڑی سیاسی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی حکومت مخالف و عوامی مسائل پر مبنی اپنی تحریکیں چلانے کا اعلان کرچکی ہیں جماعت اسلامی کے امیر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپنے دھرنے کے بعد اب یکم ستمبر سے (حق دو عوام کو) کی تحریک کا آغاز کررہے ہیں جبکہ جمعیت علمائے السلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اپنے اتحادیوں کے بغیر ہی عوامی ایشوز پر تحریک شروع کرنے کا اعلان کررہے ہیں مولانا فضل الرحمان کے سیاسی روئیے میں کافی لچک نظر آرہی ہے اور وہ متعدد بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر انہیں آئندہ کے انتخابات میں عدم مداخلت کی یقین دہانی کروا دی جائے تو وہ موجودہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیں گے۔ملک میں بجلی کی قیمتوں میں پے بناہ اضافے پر عوام بلبلا رہے ہیں بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ا س وقت پاکستان خطے میں وہ واحد ملک ہے جہاں لوگوں کے گھروں کے کرایوں سے زیادہ ان کے بجلی کے بلز ہیں حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے میں بجلی کے فی یونٹ میں 14روپے کمی کے اعلان سے دیگر تینوں صوبوںمیں ہیجانی کیفیت ہے صوبائی حکومتوں پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور لوگ بلوں میں کمی کا مطالبہ کررہے ہیں لوگوں کو حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جائے وفاقی حکومت نے بھی اپنے پالیسی بیان میں دیگر صوبوں کے مطالبے پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ پنجاب نے اپنی ترقیاتی بجٹ میں کمی کرکے بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا ہے صوبوں کے پاس این ایف سی کے تحت وسائل موجود ہیں تو اپنے طورپر یہ ریلیف دیں ۔ بجلی کی قیمت میں اضافے نے جہاں عام آدمی کا جینا دوبھر کیا ہے وہیں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر فائر وال کی تنصیب سے ملک بھر میں ای کامرس کا کام بری طرح متاثرہو گیا ہے لوگ دہائیاں دے رہے ہیں آن لائن کاروباری سرگرمیوں سے جڑے ہزاروں نوجوانوں پر بیروز گاری کی تلوار لٹکنا شروع ہوگئی ہے ملک کی معیشت پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہونگے یہ تو آنے والے دنوں میں ظاہرہوجائے گا تاہم حکومت وقت کو اپنے بقاء کی اس جنگ میں ای کامرس سے جڑے تمام کاروباری سرگرمیوں کا بہر حال ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سے ملک میں آنے والے زرمبادلہ میں کمی ہوگی۔ ادھر وفاقی حکومت نے بھی اپنے اخراجات میں کمی لانے کے لیے ڈیڑھ لا کھ سے زائد نوکریوں کی آسامیوں کو فی الفور ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ پانچ وزارتوں کو ختم کرنے کابھی اعلان کردیا ہے تاکہ وسائل پر پڑنے والے بوجھ میں کمی لا کر پنجاب حکومت کی طرز پر لوگوں کو ریلیف دینے کے عملی اقدامات کیے جاسکیں ادھر وفاقی حکومت نے ملک بھر کے ائیر پورٹس ، ریلوے سٹیشنز پر منکی پاکس کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرکے ا س کی سکریننگ کو سخت کرنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں منکی پاکس کے متعدد کیس پاکستان میں رپورٹ ہوچکے ہیں جس کے باعث عوامی سطح پر گہری تشویش پائی جارہی ہے۔
عمران خان کو "فیضیابی" گلے پڑ جانے کا خدشہ
Aug 22, 2024