لاہور(رفیعہ ناہید اکرام) گھریلو تشدد ، پسند کی شادی، طلاق کے حصول اور معاشی پسماندگی کے باعث سال 2011ءکے دوران 2846 بے سہارا خواتین اور بچے پناہ کیلئے محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے زیرانتظام بند روڈ پر واقع دارالامان کا رُخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں2050 خواتین اور 796 بچے شامل ہیں۔ دوسری جانب 30جون 2011ءسے انجمن حمائت اسلام کے زیرانتظام نصف صدی سے قائم ملکی تاریخ کے قدیم ترین دارالامان کی بندش کے باعث بند روڈ پر واقع صوبائی دارالحکومت کے واحد دارالامان میں خواتین اور بچوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ جنوری سے جون 2011ءتک کے پہلے چھ ماہ کے دوران 569خواتین اور بچے پناہ کیلئے آئے جبکہ جولائی سے دسمبر2011ءتک یہ تعداد بڑھ کر 1579ہوگئی۔ ان میں 1116خواتین اور 463بچے شامل تھے جس کی وجہ سے 50کی گنجائش رکھنے والے دارالامان کی انتظامیہ سارا سال شدید انتظامی مشکلات کا شکار رہی۔گزشتہ روز نوائے وقت سے گفتگو میں دارالامان میں رہائش پذیر فوزیہ، رفعت اور کلثوم نے بتایا کہ شوہرکے تشدد اورکفالت نہ کرنے پر بچوں سمیت گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ عاصمہ اور شائستہ نے بتایا کہ والدین پسند کی شادی کیلئے راضی نہیں تھے سو یہاں پناہ حاصل کی۔ رابعہ اور راحیلہ نے کہا کہ شوہر کے مظالم سے تنگ آکر گھر چھوڑا۔ انچارج دارالامان آمنہ بٹ نے بتایا کہ زیادہ تر لڑکیاں موبائل فون اور ٹی وی ڈراموں سے متاثر ہوکر گھر چھوڑتی ہیں مگر بہت جلد انہیں اپنے جذباتی فیصلے پر پشیمانی شروع ہوجاتی ہے۔ بہتر ہے کہ گھر والے خواتین کو جیتا جاگتا انسان سمجھیں۔