عزیز ظفر آزاد
تاجر کے روپ میں داخل ہونے والے انگریز نے مسلمان قوم کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی مکاری کے ذریعے رفتہ رفتہ پورا برصغیر تسخیر کر لیا ۔1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد تو مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ ان حالات میں مسلمانوں میں نیک سیرت اکابرین شکست خوردہ قوم کو پستی اور ذلت سے نکالنے کیلئے مسلسل کوشاں رہے۔ 1870ءمیں سید امیر علی مسلم قوم کی تعلیم و ترقی اور حاکم وقت سے تعلقات استوار کرنے کے لئے سنٹرل محمڈن ایسوسی ایشن قائم کی۔ اسی طرح 1884ءمیں پنجاب میں بھی انجمن حمایت اسلام کی بنیاد رکھی گئی تاکہ مسلم طلبہ کو تعلیم و تربیت سے عہد نو کے لئے تیار کیا جائے ۔1886ءمیں سر سید احمد خان نے مسلم قوم کو زبوحالی سے نکالنے کے لئے محمڈن ایجوکیشن کانفرنس بنائی تاکہ مسلمانوں میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔1897ءمیں سرسیدکے صاحبزادے سید محمود نے مسلمانوں کے سیاسی سماجی حقوق کے تحفظ کی غرض سے محمڈن ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم کی تاکہ انگریز سے فاصلے اور نفرتیں کم ہو سکیں ۔ بنگال کے نواب عبدالطیف نے محمڈن لٹریری سوسائٹی کے نام سے کام شروع کیا جو بنگال میں ہندوﺅں کی زہر افشانی کا موثر جواب دے سکے۔ایسے ہی محمڈن پولٹیکل آرگنائزیشن یوپی کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف انگریز ہندو کو ششیں ناکام ہونا شروع ہوگئیں اور مسلمانوں میں سیاسی شعور پروان چڑھنے لگا۔ مسلم قومیت کی بنیاد پر تقسیم بنگال مسلمانان بنگال کی ایک بڑی کامیابی تھی ۔ہندو فرقہ پرستوں کے علاوہ کانگریس کا رویہ بھی متعصبانہ تھا جنہوں نے بیہود ہ اور دلخراش لٹریچر سے نفرت کے الاﺅ بڑھکائے جس سے ہندو مسلم فساد کا سلسلہ جاری ہوگیا ۔ہندی اردو تنازعہ کھڑا ہوا ادرانگلستان میں لبرل پارٹی کی کامیابی نے مسلمانان ہند کے لئے وہ راستہ استوار کر دیا کہ مسلم ہند علیحدہ سیاسی جماعت بنا لیں۔
یہی وہ تضادات تھے جن کے بعد 1905ءمیں تقسیم بنگال مسلمانان ہند کیلئے خوشی اور کامرانی کی ہوا کا پہلا جھونکا ثابت ہوا، یعنی تقسیم بنگال مسلم برصغیر کےلئے سمت نما ثابت ہوا ۔ لہٰذا ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان نے ایک مسلم تنظیم کا خیال پیش کرتے ہوئے شملہ میں نومبر 2006ءکو کل ہند مسلم ریاستوں کے اتحاد کا منصوبہ مسلم زعما کے سامنے پیش کیا ۔ شملہ کانفرنس کے بعد ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس کلکتہ میں ہونا تھا ۔ نواب سلیم اللہ ، نواب وقار الملک ، سرآغا خان اور دیگر رہنماﺅں کی مشاورت سے فیصلہ ہوا کہ ایجوکیشن کانفرنس کے موقع پر بھی مسلم نمائندہ جماعت کی تجویز پر غور کیا جائے ۔30دسمبر 1906ءکو نواب سلیم خان کی رہائش ڈھاکہ میںیہ تاریخی اجلاس نواب وقار الملک کی زیر صدارت شروع ہوا اور نواب سلیم اللہ خان نے اپنی تقریر میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کیلئے نمائندہ سیاسی جماعت قائم کرنے کی تجویز پیش کی ۔ جناب مظہر الحق نے تائید میں زبردست دلائل سے بھرپور تقریر کی ۔نواب وقار الملک متفقہ طورپر صدر چنے گئے تو صدر مجلس نے مسلم سیاسی جماعت کو ناگریز قرار دیتے ہوئے نواب آف ڈھاکہ سلیم اللہ خان سے سیاسی تنظیم کے قیام کی باقاعدہ قرارداد پیش کرنے کو کہا جس کے جواب میں آپ نے ایک نہایت پرجوش اور ایمان افروز تقریر کرتے ہوئے قرارداد پیش کی ۔ جس کی حکیم محمد اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان صاحبزادہ آفتاب احمد خان ، شیخ عبداللہ اور مولانا محمد علی جوہر نے بعض ترامیم کے ساتھ تائید کی ۔
قرار داد میں واضح کیا گیا"مسلمانان ہند کایہ نمائندہ اجلاس جو برصغیر کے تمام حصوں سے ڈھاکہ میں جمع ہوئے ہیں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک سیاسی تنظیم تشکیل دی جائے اور اسے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے موسوم کیا جائے" جس کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد ہونگے ۔ ۱: ہندوستانی مسلمانوں میں برطانوی حکومت کے متعلق وفاداری کا جذبہ پیداکرنا اور حکومت کی کسی کاروائی کے متعلق پیدا شدہ شبہات کو دور کرنا۔۲: مسلمانوں کے سیاسی اور دیگر حقوق کی حفاظت کرنا اور ان کی خواہشات اور ضروریات کا مودبانہ طریقے سے حکومت کو پیش کرنا ہے۔۳:مسلم لیگ کے مندرجہ بالا مقاصد کو نقصان پہنچائے بغیر دوسری ہمسایہ قوموں سے دوستانہ تعلقات استوارکرنا ہے۔
یہی وہ سعد لمحے تھے جب برصغیر کے طول و عرض سے مسلم قومیت کا درد رکھنے والے مسلمان وقت کے دھارے میں قوم کو شامل کرنے کےلئے ایک تاریخ ساز اور قومی امنگوں پر مشتمل مبارک فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ انہی عظیم ہستیوں کے جلائے چراغ نے مسلم قومیت کو ایک نظم میں پرونے میں اساسی کردار ادا کیا ۔30دسمبر 1906تاسیس مسلم لیگ کے دن اتحاد و اتفاق کے چراغ سے چراغ روشن ہونے شرو ع ہوگئے اور 14اگست 1947ءکو لیلتہ القدر کی مقدس ساعتوں میں پاک سرزمین پر میلا چراغاں کی تابانیاں ، شادمانیاں اور نو رافشانیوں نے دشمنوں کی آنکھوں کو خیرہ کر ڈالا۔
تاریخ ساز اور مبارک فیصلہ
Dec 22, 2012