لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ مخدوم سید احمد محمود کو پنجاب کا گورنر بنانے کے فیصلے کے جنوبی پنجاب کی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور جنوبی پنجاب کے رہنے والوں کی محرومیوں کا ازالہ ہوگا۔ مخدوم احمد محمود کے گورنر بننے سے فنکشنل لیگ پنجاب بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ آگئی ہے، کھوسہ کو نئی اہم ذمہ داری دی جائیگی۔ آنیوالے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی ایم کیو ایم سندھ میں کلین سویپ کرے گی۔ خیبر پی کے میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہورہی ہے، جنوبی پنجاب میں مخدوم احمد محمود کے آنے کے بعد ”مکمل سویپ“ کریں گے۔ وسطی پنجاب میں اس وقت بھی پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے 72 اور مسلم لیگ (ن) کے 63 ایم این اے ہیں، آنیوالے انتخابات میں یہ تعداد مزید بڑھے گی۔ ملک بھر میں کامیابی حاصل کریںگے۔ ق لیگ کی قیادت کو میرے حوالے سے کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ مسلم لیگ (ن) کو میری ذات سے درپیش ہے۔ ان خیالات کا اظہار میاں منظور احمد وٹو نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ اس سے قبل میاں منظور احمد وٹو نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ مجید نظامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر عزیز الرحمن چن، دیوان غلام محی الدین، راجہ عامر احمد خان، زکریا بٹ، منیر احمد خان بھی موجود تھے۔ منظور احمد وٹو نے کہا کہ ق لیگ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ہے۔ اتحاد کا فیصلہ دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت نے کیا ہے۔ انہوں نے” ناراض ارکان“ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جو ارکان صوبائی اسمبلی اپنے ارکان قومی اسمبلی سے ناخوش ہیں وہ اس وقت ڈسٹرب ہیں۔ خانیوال کے پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ارکان اسمبلی کا بھی یہی مسئلہ ہے، ہم اپنے ناراض ارکان سے رابطے میں ہیں اور ان کی ناراضگی دور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی میں رہنے والے کی ہی عزت ہوتی ہے۔ پارٹی چھوڑنے والوں کی حلقے کے لوگ بھی عزت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے 2008ءالیکشن میں بہت نقصان ہوا تھا۔ لیڈر شپ کے شہید ہونے سے کچھ لوگوں نے پی پی پی کا ساتھ نہیں دیا مگر اب 5برسوں میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صدر زرداری نے نہ صرف آئین بحال کیا بلکہ جمہوری نظام کو بھی استحکام بخشا۔ بلاول بھٹو زراری جب عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیںگے تو باشعور عوام ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ہم نے ایسا نظام بنا دیا ہے کہ اب الیکشن منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں گے۔ دہشت گردی اور انتخابی مہم کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی وارداتیں بھی ہورہی ہیں مگر سیاسی جلسے بھی ہورہے ہیں۔ الیکشن قوموں کی زندگی میں نہایت ضروری ہوتے ہیں جنگ بھی جاری ہوتو الیکشن ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش ماڈل حکومت،نگران حکومت کی مدت میں توسیع،ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے بارے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے۔ ٹیکنو کریٹس، نگران حکومت کی مدت میں توسیع کے نظریئے اور سوچ کو مسترد کیاجاچکا ہے۔ یہ سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طاہر القادری کے نعرے نظام نہیں ریاست بچاﺅ کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ سوچ خطرناک ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے خلاف ایسے نعروں کی ملک کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سیاست میں دشنام طرازی کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی ہے مگر بد قسمتی سے وزیراعلیٰ پنجاب مسلسل صدر زرداری کے خلاف غیر مہذب اور غیر شائستہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔یہ ان کی انتخابی سٹریٹجی کا حصہ ضرور ہوگا ،مگر باشعور پاکستانی ایسے رویے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب کے میٹرو بس منصوبے، دانش سکولوں، لیپ ٹاپ ، سستی روٹی، تندوروں کے منصوبوں پر لوگ بہت باتیں کرتے ہیں مگر ہم دانستہ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگاتے ہیں۔ثبوت اور تصدیق کے بغیر الزام تراشی غیر اخلاقی فعل ہے۔