کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اسد اسلم نے یونیورسٹی کے نو تعمیر شدہ ہال کا نام محمد علی جناح ہال رکھا ہے۔ جناح ہال، جناح باغ، جناح ہسپتال تو ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے بابائے قوم قائداعظم کا پورا نام اپنے ہال کے لئے مخصوص کیا ہے۔ یہ ان کی پاکستان اور بانی پاکستان سے محبت ہے۔ انہوں نے اس محبت کے حوالے سے بھی کئی تقریبات کی ہیں۔ مجید نظامی نے بھی شرکت کی ہے۔ میں تو اکثر ان کی تقریبات میں شریک ہوتا ہوں۔ آج نئے ہال میں پہلی تقریب تھی۔ مہمان خصوصی شہباز شریف نہ آئے۔ وہ آتے تو اتنے شاندار ہال میں اتنی اعلیٰ تقریب میں خوش ہوتے۔ ان کی جگہ صحت کے مشیر بہت متحرک اور مخلص نوجوان رہنما سلمان رفیق اور سیکرٹری ہیلتھ بہت دل والے عارف ندیم آئے۔ ان کے ساتھ سٹیج پر ڈاکٹر اسد اسلم سینئر ڈاکٹر منیرالحق، ڈاکٹر صائمہ ظفر، ڈاکٹر عائشہ ظفر، ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر زاہد پرویز بیٹھے تھے۔ کمپیرنگ ڈاکٹر ناصر رضا زیدی بہت ذوق شوق سے کر رہے تھے۔ مجھے بھی انہوں نے ڈاکٹر اسد اسلم کی ہدایت پر سٹیج پر بلا لیا۔ آج مجھے پتہ چلا کہ میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کتنا اہم ہے۔ میں حیران ہوا پریشان بھی ہوا۔ میری بہت پذیرائی ہوئی۔ جناب عارف ندیم نے بہت عزت سے ذکر کیا۔مہمان خصوصی سلمان رفیق نے میرے اس کالم کا ذکر کر دیا جو نوائے وقت میں شائع ہوا۔ میں نے لکھا تھا کہ ہولی فیملی ہسپتال کے پنڈی کے گندے ننگے فرش پر جنم لینے والے بچے کو چوہے نے منہ پر نوچا۔ لگتا ہے کہ اس نے بچے کو پیار سے چوما مگر اس کے تیز دانت اس کے چہرے پر اتنے زور سے چبھ گئے کہ زخم بن گئے۔ اسی رات ایک ٹی وی چینل پر گفتگو میں پنجاب حکومت پر تنقید سے وہ جذباتی ہو گئے اور ایسی باتیں کیں کہ مجھے لگا وہ بچے کی بجائے چوہے کی حمایت کر رہے ہوں شاید وہ چوہا مسلم لیگ ن کا ممبر ہو۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ خفا ہو جائیں گے مگر وہ دوسرے دن ہولی فیملی ہسپتال پنڈی چلے گئے۔ مجھے دوستوں نے کہا کہ یہ تمہارے کالم کا اثر ہے۔ میں نہ مانا مگر سلمان رفیق نے خود اپنی تقریر میں یہ بات کہہ دی تو مجھے نوائے وقت کے کالم نگار ہونے پر فخر محسوس ہوا۔ سلمان رفیق دوست ہیں۔ میں ان کے بڑے بھائی خواجہ سعد رفیق کو پسند کرتا ہوں۔ وہ دلیر سیاستدان ہیں۔ سلمان رفیق اچھے آدمی ہیں۔ انہوں نے ینگ ڈاکٹروں کے مسئلے کو سیکرٹری ہیلتھ سے مل کر حل کیا ورنہ ڈاکٹر سعید الٰہی نے سارا کام خراب کر دیا تھا۔ یہاں بھی عارف ندیم نے بہت اچھی باتیں کیں جبکہ وہ انگریزی میں تھیں۔سب لوگوں نے ڈاکٹر اسد اسلم کی کارکردگی اور تعلیمی تخلیقی معرکہ آرائیوں کی تعریف کی۔ انہوں نے تعلیمی معیار کو سنبھالا دیا ہے اور کالج کو یونیورسٹی کی سطح تک لانے میں سنجیدگی سے کوششیں کی ہیں۔ پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ ایم ڈی کورس پر خصوصی توجہ دی گئی۔ کلچرل اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اضافہ کیا گیا۔ سٹوڈنٹس کی تعداد اور استعداد کو ایک معیار پر لایا گیا۔ ایم فل اور اعلیٰ درجے کی تعلیم میں بہت کشش اور کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ اس صورتحال پر سینئر بزرگ ڈاکٹر منیرالحق نے کہا کہ وقت آنے والا ہے۔ اس میڈیکل ادارے میں صرف لڑکیاں ہوں گی۔ اب بھی 70 فیصد لڑکیاں ہیں 30 فیصد لڑکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے عرض ہے کہ یہی حال رہا تو دو چار لڑکے یہاں ہوں گے۔ ان پر یہ شک ہو گا کہ تم لڑکے ہو یا لڑکی ہو۔غالباً ڈاکٹر عائشہ ظفر نے کہا کہ آنے والے وقتوں میں اس یونیورسٹی کی وائس چانسلر کوئی خاتون ہو گی۔ اس پر محمد علی جناح ہال میں موجود مردوں اور مرد ڈاکٹروں نے زیادہ زور سے تالیاں بجائیں۔ عائشہ ظفر اور صائمہ ظفر دونوں بہنیں ہیں اور نامور پروفیسر ڈاکٹر حیات ظفر کی بیٹیاں ہیں جو نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے۔ اب سے بیس پچیس سال پہلے میں جب بھی ملتان گیا تو نشتر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جناب ظفر ہی ہوتے تھے۔ ان سے ایک سرسری ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عائشہ اور صائمہ اپنے نام کے ساتھ شادی کے بعد بھی اپنے والد کی نسبت زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے ڈاکٹر زیدی نے ایک تنظیم ”اپنا“ کا ذکر کیا یہ ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشن ان نارتھ امریکہ ہے جسے اختصار کے ساتھ اپنا نام دیا گیا ہے۔ میں نے اسے اردو والا اپنا سمجھا۔ ایک اپنائیت اور دلآویزی ان کی گفتگو میں تھی۔ ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ تھوڑی سی توجہ لاعلاج مریضوں میں بھی زندہ رہنے کی امنگ پیدا کر دیتی ہے۔ عائشہ ظفر اور صائمہ ظفر یہاں برن یونٹ قائم کر رہی ہیں۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے۔ وہ ان لوگوں کے لئے بھی کوئی برن یونٹ بنائیں جو حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ ان کا علاج بھی ہونا چاہئے جیسے فورتھ ائر کی سٹوڈنٹ شکایت کرے کہ ڈاکٹر صاحب وہ لڑکی میرے ساتھ بہت جلتی ہے۔ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر زاہد پرویز میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ اے ایم ایس تھے تو ان سے دوستی کا آغاز ہوا۔ وہ بہت زبردست اور مخلص منتظم ہیں اور دوست اس سے بھی بڑے ہیں۔ وہ جناح ہسپتال چلے گئے تو میں وہاں جانے لگا۔ اب وہ میو ہسپتال آ گئے ہیں میں یہاں آتا ہوں۔ یہاں ڈاکٹر اسد اسلم بھی ہیں جو اپنی محبت اور سادگی سے میرے دل کے بہت قریب ہیں۔سٹیج پر بیٹھے سب لوگوں کو شیلڈ ملی۔ ڈاکٹر ناصر زیدی کو شیلڈ وصول کرنے کے لئے میرے عزیز اور بہت اہل ڈاکٹر خواجہ خورشید نے دعوت دی تو تھوڑی سی کمپیرنگ اس نے بھی کر دی۔ شیلڈ مجھے بھی ملی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کس خوشی میں۔ ڈاکٹر ناصر زیدی نے کہا کہ جس خوشی کے لئے آپ کو سٹیج پر بٹھایا گیا ہے اور پھر آپ ڈاکٹر بھی ہو۔ ہمارے ملک میں کوئی لاکھ پی ایچ ڈی ہو جائے ڈاکٹر کو ایم بی بی ایس ہی کہا جائے گا جبکہ وہ صرف گریجوایٹ ہوتا ہے۔ ہال میں اتنے سارے ڈاکٹروں کے درمیان آدمی خود بخود مریض لگنے لگتا ہے۔ میں تو دل کا مریض ہوں۔ یہ بیماری تو ہر آدمی کو ہونا چاہئے۔ خاص طور ڈاکٹروں کو دل کا درد ہونا چاہئے تاکہ ڈاکٹر مریض کے درد کو محسوس کر سکیں۔ میری کیفیت کو نامور شاعر مرزا غالب نے خوب بیان کیا ہےعشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایادرد کی دوا پائی درد لادوا پایاہال میں ڈاکٹر محمود علی ملک بھی تھے۔ وہ بہت سینئر اور محترم ہیں۔ وہ جب فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے تو وہاں ایک تقریب میں گورنر پنجاب خالد مقبول کو کھری کھری سنا دیں۔ میں نے اس بہادری پر ان کے لئے کالم لکھا تھا۔ ایک اچھا ڈاکٹر دلنواز ہوتا ہے اور دلیر بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی ڈاکٹر اسد اسلم کی انتظامی اور فلاحی صلاحیتوں کی تعریف کر رہے تھے۔ یونیورسٹی کا سربراہ ہر وقت ریلیکس رہتا ہو تو ماحول خوشگوار رہتا ہے۔ چائے کی میز پر عارف ندیم ڈاکٹروں کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے۔ ینگ ڈاکٹروں سے بھی گھل مل گئے۔ ڈاکٹر ارشاد، ڈاکٹر صداقت، ڈاکٹر خالد گوندل، ڈاکٹر رانا نصراللہ کی موجودگی میں ڈاکٹر محمود علی ملک نے کہا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو زندہ رکھا جائے۔ ڈیڑھ سو برس کی روایات اسی سے وابستہ ہیں۔