ابھی تک پوری طرح پتہ نہیں چل رہا کہ ایکشن پلان کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے کیا کِیا ہے؟ ابھی تک پلان بن رہا ہے۔ لگتا ہے کہ کمیٹی کا ہر ممبر اپنے اپنے پلان کے مطابق بات کرے گا۔ کمیٹی کے یہ ممبران قومی اسمبلی کے ممبران کی طرح نہ بن جائیں۔ اب تک پاکستان میں بننے والی اسمبلیوں نے کوئی پلان نہیں دیا نہ اس پر عمل ہوا ہے۔ ایسے بھی ممبران ہیں جو پوری مدت گزار دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ کسی کی بات سُنتے بھی نہیں۔ پھر کمیٹی اور اسمبلی میں کیا فرق ہے؟
الطاف حسین دہشت گردی کے خلاف سنجیدگی سے کوئی کارروائی کرنے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ”آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیلایا جائے۔“ یہ مطالبہ ناجائز بھی نہیں ہے۔ دہشت گرد پورے ملک میں موجود ہیں، کہیں چُھپے ہوئے ہیں، کہیں کُھلے عام پھرتے ہیں، انہیں پناہ بھی مل جاتی ہے اور ”چراہ گاہ“ بھی مل جاتی ہے۔ جہاں دہشت گردی ہوتی ہے تو مقامی لوگوں کے تعاون اور سہولت سے ہوتی ہے۔ یہ جو دہشت گردوں کے سہولت کار کی بار بار بات ہوتی ہے تو یہ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔
الطاف حسین نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز لال مسجد والے کو گرفتار کیا جائے۔ ہم نے لال مسجد کے حوالے سے ”جنرل صدر مشرف کی کارروائی دیکھی تھی۔ مولانا عبدالعزیز برقعہ پہن کر فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوئے، انہیں چوہدری شجاعت نے پکڑ لیا۔ نجانے وہ برقعہ پہن کر کیوں بھاگے۔ بہرحال وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اب پھر وہ لال مسجد کے مالک ہیں۔ انہوں نے پشاور دہشت گردی کی کھلی مذمت نہ کی اور آپریشن ضربِ عضب پر بھی تنقید کی تو علاقے کے لوگوں نے ان کے خلاف دھرنا دیا اور مقدمہ درج کروایا۔
جب طالبان سے مذاکرات کی بات شروع ہوئی تو طالبان کی طرف سے ایک اہم نمائندہ مولانا تھے اور یہ مذاکرات برادرم عرفان صدیقی کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہوئے اور دہشت گردی کی دو چار وارداتوں کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع ہُوا اور اب تک فوجی جوانوں اور افسروں کی جانفشانی اور قربانی جاری و ساری ہے، مسلسل اور مکمل کامرانی بھی حاصل ہو رہی ہے مگر پشاور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں پر دہشت گردوں نے جو قیامت توڑی ہے ساری قوم دم بخود مگر بیدار اور بے قرار ہو گئی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ پاک فوج کے لئے حمایت اور آپریشن ضربِ عضب کے لئے اطمینان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج زندہ باد کے نعرے محاذ جنگ میں بلند ہوتے ہیں اب جہاں بھی کوئی ریلی نکلتی ہے، کوئی اجتماع ہوتا ہے، محاذ جنگ سے کسی شہید کا جسد خاکی آتا ہے تو پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے اسی جوش و خروش کے ساتھ گونجتے ہیں جس طرح بھارت کے ساتھ 65ءکی جنگ ستمبر میں گونجتے تھے۔
آپریشن ضربِ عضب وزیرستان میں ہو رہا ہے اور کامیابی سے ہو رہا ہے۔ جنرل راحیل ایک بلند نگاہ اور بہادر دل کے آدمی ہیں تو یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں سے معرکہ آرائی کی جائے۔ میں نے تو مذاق مذاق میں یہ بات بھی لکھی تھی اور وہ میرے کالم میں شائع بھی ہوئی تھی کہ ایک وزیرستان اسلام آباد میں بھی ہے جہاں وزیر رہتے ہیں اس علاقے کو بھی وزیرستان کہا جا سکتا ہے۔ یہ وزیر شذیر ”صدر“ مشرف اور ”صدر“ زرداری کے زمانے کے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ نواز شریف نے اب بہت دلیری سے فیصلے کئے ہیں۔ ان کی صدارت میں APC کی میٹنگ میں سیاستدان شریک ہوئے، عمران خان بھی موجود تھے، انہوں نے دھرنا بھی ختم کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انہیں کور کمانڈر پشاور نے دھرنا ختم کرنے کے لئے کہا تھا۔ عمران نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اب تک اس کے سب پلان ناکام ہو چکے ہیں۔ اب وہ دہشت گردی کے خلاف ایکشن پلان میں شریک ہوئے ہیں، اللہ خیر کرے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ اصل حوالے سے عمران نے بڑے دل کا ثبوت دیا ہے۔ ایک انا زدہ سیاستدان کا یہ عمل قابل تعریف ہے۔ نواز شریف نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ امید ہے کہ سیاستدان نیک نیتی سے اکٹھے رہیں گے اور پاک فوج کے ساتھ بھی یکجہتی جاری رہے گی۔ سیاست اور فوج کے اتحاد س ہی ظالمانہ چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ایکشن پلان مرتب کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ ان میں کسی بحران سے مقابلے کا وژن نہیں ہے۔ اکثر سیاستدان وژن کے نہیں ٹیلی وژن کے لوگ ہیں۔ چوہدری نثار کی صدارت میں اس اجلاس سے توقعات قائم کی جا سکتی ہیں۔ چودھری نثار سیاست بھی جانتے ہیں وہ دوٹوک آدمی ہیں، وہ بحرانوں کے اندر اعتماد اور جرا¿ت کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں۔ کمیٹی میں مشاہد حسین سید بھی ہیں جنہیں چوہدری شجاعت نے نامزد کیا ہے۔ وہ جینوئن دانشور ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی امور پر گہری علمی اور سیاسی نظر رکھتے ہیں۔ اعجازالحق کے لئے بھی میری رائے پازیٹو ہے، وہ حالات سے باخبر ہیں۔ لال مسجد کے سانحے کو بھی انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ طالبان کے حوالے سے وہ مختلف پالیسیوں سے واقف ہیں۔
رحمان ملک وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے میں کیا کردار کیا تھا؟ وہ ”صدر“ زرداری کی مفاہمانہ سیاست یہاں بھی چمکائیں گے۔ سزائے موت پر پابندی صدر زرداری نے لگائی تھی تو اب رحمان ملک کا کیا ارادہ ہے۔ APC میں صرف ”صدر“ زرداری تھے؟ اکرم درانی پانچ سال پشاور میں اسی کرسی پر رہے جہاں آج پرویز خٹک براجمان ہیں پرویز خٹک نے جو کچھ کیا ہے اس سے مختلف تو نہیں جو اکرم درانی نے کیا تھا۔ وہ مولانا فضل الرحمن سے پوچھ کر ہی کوئی تجویز دیں گے؟
یہ قیامتیں جو گزر گئیں، تھیں امانتیں کئی سال کی