مسلم لیگ کے آدھے سے زیادہ ارکان شریف برادران کے رویہ سے نالاں ہیں : سردار ذوالفقار کھوسہ! اور باقی آدھے ارکان کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے یہ سردار جی نے نہیں بتایا۔ لطف کی بات یہ ہے تمام تر لابنگ اور کوشش کے باوجود صرف 40 ارکان نے انکے بقول انہیں حمایت کا یقین دلایا ہے باقی سب نے خاموشی میں ہی عافیت ڈھونڈی ہے۔ جب تک شریف خاندان کھوسہ خاندان پر مہربان رہا باپ بیٹوں کو ہر طرح کی سرکاری غیر سرکاری مراعات حاصل تھیں اس وقت تک تو کھوسہ خاندان صبح شام شریف برادران کے قصیدے پڑھتا تھا پھر جب خونِ ناحق کا شور بلند ہوا تو کھوسہ خاندان نے اسے بھی اپنی جاگیر میں مدفون سینکڑوں بے گناہ مقتولین کی طرح دبانا چاہا مگر پانسہ پلٹ چکا تھا۔ یہ کسی مظلوم کمی کمین کا لہو تو تھا نہیں یہ ایک شہری اور شوبز کے معروف طبقے سے تعلق رکھنے والی ماڈرن خاتون کا قتل تھا اس پر سوسائٹی اور خود مقتولہ کے اہلخانہ نے احتجاج کیا تو مجبوراً پولیس اور حکومت کو ایکشن لینا پڑا۔ بس وہ دن اور آج کا دن کھوسہ خاندان کی شریف برادران سے دوریاں بڑھنے لگیں اور بالآخر نوبت سیاسی طلاق تک آ پہنچی۔ میاں برادران کا سورج تو اس وقت نصف النہار پر ہے جس کی وجہ سے اپنا سایہ بھی ساتھ نہیں دیتا غائب ہو جاتا ہے اس دوپہر میں کھوسہ جی نے بے سبب علیحدگی کا سوچا۔ کون بے وقوف اس وقت جب محفل رنگِ شباب پر ہو محفل سے اٹھتا ہے، اب تنہا سردار کھوسہ صاحب برف ہاتھ میں لئے ایوان سلطنت سے اپنی جاگیر کا سفر طے کرنے نکلے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کڑی دھوپ میں یہ برف کب تک ان کا ساتھ دیتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا ....
اتنا سوچا ہے ان سوالوں پر
برف گرنے لگی ہے بالوں پر
کھوسہ صاحب بھی سفید ریش ہیں کم از کم وہ اپنی سیاسی ریاضیت سراب کے پیچھے بھاگنے میں ضائع کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کا بیڑا اٹھا لیں تو ان کا شمار بھی ”میڈا سائیں“ کی بجائے ”ایدھی بابا“ جیسے لوگوں میں ہو سکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
سردیاں بڑھتے ہی برائلر گوشت اور انڈوں کو پَر لگ گئے، سبزیاں بھی مہنگی ہو گئیں! پَر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے والی شاعری شاید ایسے ہی موقع کےلئے کی گئی تھی۔ جب سے حکمرانوں کے ہاتھ تجارت کا ہُنر آ گیا ہے انہوں نے سارے تیر بہ ہدف نسخے عوام پر آزمانے شروع کر دئیے ہیں۔ لوہا مہنگا ہُوا تو تعمیراتی سرگرمیوں پر اثر پڑا، مکانات کے ریٹ بڑھ گئے، غریبوں کےلئے سر چھپانے کےلئے گھر بنانا مشکل ہو گیا۔ لینڈ مافیا نے اراضی کی قیمتوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا، زمین کی قیمت بڑھ گئی۔ یہاں تک تو چلیں گزارہ ہو ہی جاتا ہے غریبوں نے کونسا گھر بنانا یا زمین خریدنی ہوتی ہے مگر اب تو غریبوں کے پیٹ پر لات ماری جا رہی ہے، لے دے کر یہی پیٹ تو رہ گیا ہے جس کی پوجاپاٹ کےلئے یہ غریب صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتا رہتا ہے اور جب اسے اس کی محنت کا معاوضہ ملتا ہے اول تو وہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ اس کا ذکر ہی باعثِ شرمندگی ہے۔ جب وہ گھر کی ہانڈی روٹی کی طرف توجہ دیتا ہے تو اس کا کُل سرمایہ یہ اثاثہ ایک ماہ تو درکنار 10 یا 15 دن کےلئے بھی ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ چار یا پانچ سال کے اندر اندر برائلر گوشت جو 70 روپے کلو عام دستیاب تھا اب 250 روپے نرخ کو کراس کرتا نظر آ رہا ہے۔ دالیں جو 50 تا 60 روپے کلو تھیں آج 120 تا 150 روپے تک پہنچ گئی، یہی حال سبزیوں کا ہے۔ جانوروں کےلئے بطور چارہ استعمال ہونے والی سبزیاں گوبھی، شلجم وغیرہ بھی غریب کے دستر خوان سے غائب ہونے لگی ہیں۔ اگر حکمرانوں کو فرصت ملے تو ذرا اس طرف بھی توجہ دیں کہ حکومتی ریلیف کے اقدامات کے باوجود ان کے اثرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے۔ یہ کون سے عناصر ہیں جو حکومتی اقدامات کو بھی بے اثر بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں، اگر یہ لوگ حکمرانوں کے اپنے ہیں تو ذرا ”دُرہ فاروقی“ پہلے ان کی کمر پر برسا کر انہیں تو راہ راست پر لایا جائے کیونکہ پدر کے ہاتھوں پسر کی پشت پر تازیانے کا خوف ہی بہت سے دیگر رشتہ داروں کےلئے بھی کافی ہو گا۔ آزمائش شرط ہے اور ساتھ ہی من مانے ریٹ مقرر کرنے والے دکانداروں کی بھی کھال اُدھیڑی جائے تاکہ ان کو بھی نصیحت ہو۔ آخر یہ صوبائی پرائس کنٹرول کمیٹیاں، وزارت خوراک، فوڈ کنٹرول اتھارٹیاں یہ سب کس مرض کی دوا ہیں۔ ان پر بھی ہنٹر برسائے جائیں تو معاملہ سدھر سکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
مسلسل نظر اندز کئے جانے پر مخدوم امین فہیم کا فارورڈ بلاک بنانے کا امکان! رہنے دیں مخدوم جی، اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد جب آپ جیسے کئی دوسروںکے ساتھ جن میں ناہید خان بھی شامل ہے ناانصافی کا آغاز ہوا اور بھائی بہن نے مل کر جعلی وصیت کی رو سے ساری پارٹی پر قبضہ جما لیا اگر اس وقت آپ نعرہ حق لگاتے اور برسر میدان آتے تو پارٹی کے بہت سے ناتوانوں کو زبان مل جاتی اور وہ بھی آپ کے ہمراہ ہوتے اب تو سوائے صبر کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ زرداری تو پارٹی میں اپنے بیٹے کی نہیں چلنے دیتے آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ بیٹا بھی باپ کی دہشت سے باہر جا کر پناہ گزیں ہو چکا ہے شاید وہ اپنی ماں کے انجام سے خوفزدہ ہو کر خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور ہے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ایک اور جعلی وصیت سے آصفہ زرداری یا بختاور زرداری پارٹی کی شریک چیئرمین بن جائیں اور پیپلز پارٹی کو ایک اور شہید مل جائے۔ یہ کوئی انہونی کہانی نہیں، تاریخ قدیم سے تاریخ جدید تک یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہ تو پھر ایک سونے کے انڈے دینے والی پارٹی ہے اس کو کون ہاتھ سے جانے دیتا ہے ورنہ اگر حق بحقدار رسید والی بات ہوتی تو آج بھٹو کی پارٹی پر آصف زرداری نہیں مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر چیئرمین ہوتا یا فاطمہ بھٹو پارٹی کی قیادت کرتی نظر آتی۔ تو سائیں جی ایسے مخدوش حالات میں آپ کو کیا پڑی کہ آپ پرائی آگ میں اپنا ہاتھ جلاتے ہیں۔ ہاں اگر معقول تعداد میں ایم این ایز یا ایم پی ایز آپ کے ساتھ ہیں تو پھر بسم اللہ کریں بلاول زرداری کو ساتھ ملا کر اپنی طاقت بڑھائیں ورنہ تنہا پرواز پیپلز پارٹی سے ہجرت کرنے والے پرندوں کو راس نہیں آتی۔ البتہ اگر بلاول آپ کے ہمرکاب ہو گیا تو پھر ”ہمسفر ملتے گئے، کارواں بڑھتا گیا“ والی بات ہو گی ۔