حویلی لکھا میں پچھلے دنوں ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ صاحب خانہ کا نام عبدالستار اور جنت بی بی تھا۔ ایک غریب فیملی کو مل کر خوشی تو بہت ہوئی مگر افسوس کی بھی کوئی حد نہ رہی جب ملاقات ان کی 6 اندھی لڑکیوں سے ہوئی۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان میاں بیوی نے 10 بچوں کو جنم دیا جن میں سے دو بچے صحت مند ہیں جبکہ باقی آٹھ لڑکیاں اندھی پیدا ہوئیں جن میں سے 4 لڑکیاں مر چکی ہیں اور 4 زندہ ہیں۔ 4 اندھی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کا بیاہ کر دیا گیا اور اس نے آگے 4 بچوں کو جنم دیا۔ 2 اندھے بچے مر چکے ہیں اور دو زندہ ہیں۔ اب اس ایک فیملی میں 4 بیٹیاں اندھی اور دو نواسیاں۔
پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس فیملی میں کزن میرج کا بہت رجحان ہے۔ کزن میرج کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں جیسا کہ پراپرٹی کو گھر میں رکھنا‘ دوسری فیملی سے میل جول پسند نہ کرنا‘ وہاں لوگ جہالت اور تنگ نظری کی وجہ سے خودساختہ مشکلات پیدا کر چکے ہیں۔اب اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے غلطی کس کی ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے حکمران؟ ہمارے ادارے؟ یا ہمارے عوام؟ جو جہالت اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور ذہنی پسماندگی کی وجہ سے اپنے روزمرہ امور بھی احسن انداز میں طے کرنے سے قاصر ہیں۔
انسان جس کو احسن المخلوقات اور اشرف المخلوقات کہاجاتا ہے‘ وہ اس قسم کے دلدل میں خود کو خود دھکیل رہے ہیں۔ جب ابنارمل بچے پیدا ہو رہے ہوں تو ان غریبوں کی رہنمائی کرنا کس کا فرض ہے؟ کہ میاں اب بس کریں۔ اتنے سارے ابنارمل بچوں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟لیکن ہماری ریاست جوکہ فلاحی ریاست نہیں ہے‘ اور ہمارے ادارے جو اپنا کام یکسوئی سے نہیں کر رہے‘ سو ریاست‘ ادارے اور عوام تینوں ذمہ دار ہیں۔ الفت‘ عنبر‘ انعم‘ صنم‘ زارا اور فروا کے اس حال کا۔ جہاں ان کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں تک میسر نہیں۔
لیکن اس ساری صورتحال میں قابل تعریف کردار ان ماں باپ کا ہے جو غریب اور جاہل ہوکر بھی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔ باپ ان بچیوں کا آتش بازی کا سامان تیار کرتا ہے اور ان لوگوں کی کفالت کرتا ہے۔ اس فیملی کے پاس چھوٹا سا گھر ہے اور وہ دو وقت کی روٹی کھانے کیلئے سڑکوں پر ان بچیوں سے بھیک منگوانے کی بجائے عزت سے اپنے معاملات نمٹا رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کزن میرج سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل کیسے نکلے گا۔ جب سائنس اور مذہب ایک پیج پر نہ ہوں‘ اس کے لئے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس انسانی کوتاہی سے پیدا ہونے والے مسائل کا مؤثر حل تلاش کیا جا سکے۔