مَیں نے 9 اگست 2012ءکو ”نوائے وقت“ میں اپنی کالم نویسی کا تیسرا دور شروع کِیا تو لڑکپن اور گورنمنٹ کالج سرگودھا کے میرے بھولے بسرے 78 سالہ دوست ڈاکٹر عظمت الرحمن نے مجھ سے رابطے میں پہل کی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب حکیم فضل الرحمن مرحوم مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ”پٹیالہ“ کے مہاراجا یادوِیندر سِنگھ کے ذاتی معالج تھے لیکن 1947 میں پٹیالہ شہر اور ریاست کے کئی دیہات میں اُن کے کئی رشتہ دار سِکھوں کے ہاتھوں (کئی اُن سے لڑتے ہُوئے بھی) شہید ہوگئے۔ حکیم فضل اُلرحمن صاحب نے سرگودھا کی ”جامع مسجد گول چوک “ کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کِیا ہے۔ عظمت اُلرحمن اور اُن کے کئی دوستوں نے مسجد کی تعمیر میں رضا کارانہ طور پر مزدوروں کی طرح کام کِیا۔ حکیم صاحب کے ”دربار شاہی مطب“ میں غریبوں (خاص طور پر مہاجروں) کا مُفت علاج ہوتا تھا۔
یکم دسمبر کو مردم شماری سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ”جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے۔ مردم شماری نہ کرا کے پورے مُلک سے مذاق کِیا جا رہا ہے۔ حکومت کی نِیت ٹھیک نہیں۔ ساری جماعتیں "Status Quo" ( جُوں کے تُوں حالات) پر خوش ہیں“۔ چیف جسٹس صاحب نے اٹارنی جنرل اُشتر اوصاف صاحب کو خبر دار کِیا تھا کہ ”17 دسمبر تک مردم شماری سے متعلق وزیراعظم کے دستخط شُدہ شیڈول عدالت میں پیش کریں ورنہ وزیراعظم صاحب کو "Summon" کِیا جائے گا“۔ چیف جسٹس صاحب کے اِن ریمارکس پر 3 دسمبر کو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا
” کِس طرح کیسے کریں؟ مَردم شماری ہائے ، ہائے!“
3 دسمبر کو ہی مجھے ڈاکٹر عظمت اُلرحمن نے 50/40 سال سے با رابطہ اپنے پاکستانی نژاد دوست آسڑیلیا کی "Macquarie University" کے "Demographer"پروفیسر ڈاکٹر فرحت یوسف نے ہندو پاکستانی صحافی "Anil Datta" کے انٹرویو کی فوٹو کاپی بذریعہ ای میل بھجوائی۔ یہ انٹرویو 25 مارچ 2015ءکو کراچی کے انگریزی اخبار "The News" میںشائع ہُوا تھا۔ ڈاکٹر عظمت اُلرحمن نے مجھے کہا کہ ”اثر چوہان صاحب! مسئلہ صرف مردم شماری کا ہی نہیں بلکہ "Demography" کا ہے“۔ انگریزی لفظ "Demography" کا مطلب ہے۔ ” پیدائش، اموات، امراض وغیرہ کے اعدادو شمار کا مطالعہ¿ ، جس سے معاشرتی حلقوں، طبقوں وغیرہ میں بودو باش کی کیفیت معلوم کی جاسکے۔ مطالعہ¿ جمہور یا جمہور نگاری“۔
17 دسمبر کو خبر آئی کہ ” وزیراعظم صاحب کی صدارت میں منعقدہ مشترکہ مُفادات کونسل کے اجلاس میں (جِس میں سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے )فیصلہ ہوگیا ہے کہ ”چاروں صوبوں میں 15 مارچ 2017ءسے ”مردم شماری“ (Censu) اور ”خانہ شماری “(House Listing )شروع کردی جائے گی“۔ مَیں حیران تھا کہ چیف جسٹس صاحب نے تو مردم شماری (Censu) کرانے کا حکم دِیا تھا کیا مردم شماری کے ساتھ ساتھ اب ” خانہ شماری“ (House Listing) بھی ہوگی؟۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ، جو لوگ بے گھر (خانہ بدوش) ہیں اور کُھلے آسمان تلے ”اختر شماری“ کر کے (تارے گِن گِن کر) راتیں گذارتے ہیں اُن کی خانہ شماری کیسے ہوگی؟
مَیں نے ڈاکٹر فرحت یوسف صاحب کا انٹرویو پڑھنے سے پہلے اپنی کتاب ”دوستی کا سفر“ کا ایک باب ” شناخت نامہ“ پڑھا۔ یہ کتاب مَیں نے 1986ءاور 1988ءمیں اپنے دورہ¿ سوویت یونین کے بعد لکھی تھی۔ میں سرکاری ایجنسی "Novosty Press Agency" (A.P.N) کا مہمان تھا ۔ جب "A.P.N" کے افسران نے مجھے سوویت یونین میں "Demography" (جمہور نگاری) کے کمالات سے آگاہ کِیا۔
مجھے بتایا گیا کہ ”ہر سوویت یونین ریاست کے شہری (لڑکا/ لڑکی) کا 16 سال کی عمر میں "Passport" بنا دِیا جاتا ہے۔ پاسپورٹ پر اُس شخص کا نام، ولدیت، خاندانی نام، تاریخ پیدائش، مقامِ پیدائش اور پتہ درج ہوتا ہے اور تصدیق شدہ تصویر بھی۔ 25 سال کی عمر میں ہر شخص کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر نئی تصویر چسپاں کردی جاتی ہے۔ اگر اُس کا پتہ تبدیل ہوگیا ہو تو نیا پتہ، اگر اُس نے شادی کرلی ہو تو بیوی/ خاوند کا نام اُس کے والد کا نام، خاندانی نام، تاریخِ پیدائش، مقامِ پیدائش، اُس شخص کے پاسپورٹ پر اُس کی بیوی/ خاوند کے پاسپورٹ کی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں“۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ” جب کوئی سوویت شہری 45 سال کا ہو جاتا/ جاتی ہے تو اُس کے اگلے صفحات پر اُس کی تصویر لگا دی جاتی ہے۔ 25 سے 45 سال تک کی عمر کے دوران اُس کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر طلاق، نئی شادی، بچوں کی پیدائش یا پتے کی تبدیلی ہو چکی ہو تو اُس کی تفصیلات بھی درج کر دی جاتی ہیں۔ 45 سال کی عمر کے شخص کی اُس کے پاسپورٹ پر اُس کی نئی تصویر نہیں لگائی جاتی“۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ”اگر کسی شخص کا پاسپورٹ گُم ہو جائے اُس کی سخت سر زنش کی جاتی ہے اور جرمانہ کر کے نیا پاسپورٹ بنا دِیا جاتا ہے“۔
21 دسمبر کو مَیں نے ڈاکٹر فرحت یوسف صاحب کا انٹرویو پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ”برصغیر پاک و ہند میں مردم شماری (Census) 1881ءمیں شروع کی گئی اور ہردس سال بعد ہوتی رہی۔ بھارت میں یہ رواج اب بھی ہے جو اُس کی مُعیشت اور معاشرت کے لئے فائدہ مند ثابت ہُوا۔ بعض دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ”سیاسی اغراض“ کی وجہ سے بے اعتنائی برتی گئی۔ چیف جسٹس انور جمالی صاحب نے بھی تو یکم دسمبر کو اپنے ریمارکس میں یہی کہا تھا۔
ڈاکٹر فرحت یوسف نے بتایا کہ آسڑیلیا میں ہر بچے کی پیدائش پر اُس کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ ورنہ اُسے سکول میں داخلہ نہیں مِلتا۔ جوان ہو جائے تو اُسے شادی کی اجازت نہیں مِل سکتی اور اگر وہ مر جائے تو "Funeral" (تجہز و تکفین میں مشکلات پیش آتی ہیں)۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ”سڑکیں ، پُل، نکاسیِ آب کا نظام بھی ضروری ہے لیکن حکمران پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کو اپنی اوّل ترجیح کیوں نہ سمجھیں“۔ انہیں ہر عمر کے بچوں اور مختلف امراض میں مبتلا شہریوں کی تعداد کے بارے میں مکمل معلومات ہونا چاہیں لیکن ”مطالعہ¿ جمہور“ سے واقفیت کے بغیر یہ کیسے ممکن ہوگا؟
ڈاکٹر فرحت یوسف کو حال ہی میں آسڑیلیا کا اعزاز، "Member Of Order" مِل چُکا ہے ۔ وہ 1947ءمیں اپنے بزرگوں کے ساتھ دِلّی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ "W.H.O" اور اقوام متحدہ کے دوسرے اہم اداروں میں نمایاں حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دُکھی ہو کر پاکستان سے آسڑیلیا واپس چلے گئے تھے۔ پختہ عُمر میں پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے یہاں تو سارے ادارے "I.M.F" کے ماتحت ہیں۔ پاکستان میں ” خانہ شماری“ اور ” مردم شماری“ جناب اسحاق ڈار کی حاکمِیت میں ہوگی ۔ ” جمہور کاری“ اور ”جمہوریت پر ضربِ کاری“ میں کیا فرق ہے؟ اب مَیں کیا کہوں؟