سندھ میں آصف زرداری کے استقبال کی تیاریاں عروج پر۔

آصف زرداری کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ جگہ جگہ پیپلز پارٹی کے پرچم اور بینرز لگائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خود رات گئے تک استقبالی تیاریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بہانے چلیں اندرون سندھ کے ہزاروں باسیوں کی مفت میں کراچی کی سیر بھی ہو جائے گی کیونکہ بڑے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لئے اندرون سندھ سے کارکنوں اور ورکرز کو اکٹھا کرکے لانا ناگزیر ہو گا۔ سوشل میڈیا میں الگ طوفان برپا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چائنا کی طرف سے 8 کلو سونے کا فانوس مزار قائد پر نصب ہونے کی خبر سن کر زرداری صاحب نے واپسی کا ارادہ کیا ہے۔ کئی لوگ اپنے گلاس اور جگ‘ جیبوں ‘ موبائلوں اور گاڑیوں تک کو تالا لگا کر اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ زرداری صاحب کی آمد کے موقع پر حفاظتی اقدامات ضروری ہیں، ذرا عقل مند قسم کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ زرداری صاحب کی واپسی کیلئے ہی تو اس وقت پارلیمنٹ میں پی پی پی نے نوراکشتی عروج پر پہنچاکر خوب رونق لگا رکھی ہے تاکہ حکومت دبائو میں رہے اور سابق صدر کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ الغرض پی پی پی والے خوش ہیں ناچ رہے ہیں۔ شاید وہ ’’سائیں جس حال میں رکھے خوش رہنا چاہئیے‘‘ کے فلسفے کو حرز جاں بنائے بیٹھے ہیں تو کسی کو کیا کہ پریشاں ہو۔ البتہ فکر بلاول کو کرنی چاہیے کہ کیا اب وہ کھل کر کوئی فیصلہ کر پائیں گے یا پاپا اور پھوپھو کے اشاروں پر چلیں گے۔
٭…٭…٭
پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزراء کو کمرے مل گئے ۔
ابھی تو پنجاب میں بمشکل وزراء پورے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے کمرے کم پڑ گئے۔ کہاں وہ وقت کہ وزیروں کی فوج ظفر موج ہوتی تھی مگر کمرے پھر بھی پورے ہوتے تھے۔اب یہ اچانک کمروں کی قلت کہاں سے آن ٹپکی۔ جب وزیر کم تھے تو مخالفین کہتے تھے سارے محکمے وزیراعلی نے اپنے پاس رکھے ہیں۔ شاید اسی لئے کمرے کم نہیں پڑے کیوں کہ وزیراعلی پنجاب بہرحال ایک ہی کمرے میں سارا کام سنبھالتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وزیراعلی نے ہر محکمے کا علیحدہ دفتر بھی سنبھال رکھا تھا۔اب اطلاعات ہیں کہ ایک ایک کمرے میں دو دو یا تین تین وزیروں کو کھپایا جا رہا ہے تو اس میں برائی کیا ہے پہلے بھی تو ایسا ہی تھا۔ ویسے بھی کون سے وزرا روزانہ دفتر میں آکر کام کرتے ہیں‘ بیٹھتے ہیں اور عوام کو دستیاب ہوتے ہیں۔ جب معلوم کیا تو پتہ چلتا ہے صاحب موجود نہیں۔ اب اکٹھے تین بیٹھیں یا چار بیٹھیں عوام کو کیا فرق پڑے گا۔ حسب معمول صاحب موجود نہیں کا ہی سندیسہ ملتا رہے گا۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کے پاس کمرے کیوں کم پڑے گئے۔ اس بار تو کابینہ بھی جہازی سائز کی نہیں۔ کیا اسمبلی کی تعمیرنو میں وزراء کے لئے نئے کمروں کی تعمیر ضروری نہیںسمجھی گئی یا کسی کو اس کا خیال نہیں آیا۔ ایسی وزیری شذیری میں مزہ کیا خاک آئیگا جب صاحب بہادر کے پاس اپنا دفتر ہی نہ ہو۔ وزیر بننے کا اصل مزہ تو بڑے دفتر اور جھنڈے والی گاڑی میں ہے۔
٭…٭…٭…٭
سرکاری تعلیمی سکالر شپ پر باہر جانے والے98 طالب علم غائب۔
ان فراریوں کو بھی فراڈ کیس میں ملوث ہونے پر انٹرپول کی مدد سے پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے تاکہ انہیں بھی پتہ چلے کہ عوام کے خون پسینہ کی کمائی پر باہر جاکر بھاگنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ آخر یہ 98 کروڑ روپے کا نقصان کوئی معمولی تو نہیں۔ کتنے اخراجات کے بعد انہیں اعلی تعلیم کے لئے باہر بھیجا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے کی ان میں سکت نہیں ہوتی۔ مگر باہر جا کر یہ بدمست ہوائوں میںایسے کھو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے وطن کی مٹی کا قرض بھی یاد نہیں رہتا۔ اب ہو سکتا ہے کہ حکومت بیرون ملک سکالرشپ پر پڑھنے کیلئے جانے والوں کے پاسپورٹ اس دوران ملک کے سفارتخانے میںجمع کرائے جس طرح کا عمرہ زائرین کے پاسپورٹ واپسی تک ایجنٹوں کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں ٹکٹ کٹوا کر یہ پاسپورٹ دے کر جہاز میں بٹھایا جائے۔ ورنہ اس طرح اگر اعدادوشمار نکالیں تو اب تک سینکڑوں پاکستانی اسی طرح باہر جا کر غائب ہوچکے ہیں۔ اب ان سب کے پاسپورٹ نمبر اور دیگر اندراج ‘ انٹرپول اور امیگریشن والوں کو دینے چاہئیں تاکہ وطن واپسی کی کسی بھی صورت میں انہیں شکنجے میں کسا جا سکے۔
٭…٭…٭
کراچی میں ساحل سمندر کی صفائی مہم میں سکولوں کی طالبات کی شرکت
کراچی شہر نہ سہی ساحل سمندر ہی سہی۔ کسی بہانے سے کچھ نہ کچھ تو صاف ہو ہی جائے گا۔ ویسے بھی جو لوگ ساحل سمندر پر شاپر بیگز میں سامان ساتھ لاتے ہیں اگر انہیں پابند کیا جائے کہ جاتے ہوئے بچ جانے والا کچرا اسی شاپر بیگ میں ڈال کر ساتھ لے جائیں اور کسی کچرا دان میں ڈالیں تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ ویسے بھی تو جگہ جگہ کچرا دان رکھے ہیں اِدھر اُدھر کچرا پھینکنے کی عادت اب ہمیں بدل دینی چاہئیے۔ ورنہ اسی طرح سکولوں کے بچوں کو اپنے بڑوں کا پھیلایا ہوا گند صاف کرنا پڑے گا۔ اب حکومت بلدیہ یا جس کسی این جی او نے یہ مہم شروع کی ہے ان کی کم عقلی پر بھی رونا آ رہا ہے۔ سکولوں کی کئی بچیاں بنا کسی حفاظتی اصول کے پلاسٹک گلوز پہنے کھلے ہاتھوں سے جراثیم زدہ آلودہ گند اٹھا اٹھا کر جمع کر رہی ہیں کیا یہ غلط نہیں۔ کم از کم تمام بچیوں کو ہاتھوں کی حفاظت بچانے کیلئے دستانے ہی پہنا دیئے جاتے کہ جراثیم آلودگی سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر جلد بازی میں احکامات جاری کر کے میڈیا میں نام کمانے کے شوقین نجانے کیوں حفاظتی اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ انہیں ان اصولوں پر بہرحال عمل کرنا چاہئیے تاکہ ہمارا مستقبل بھی آلودگیوں سے محفوظ رہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...