”اِن کیمرہ“ کا مطلب ”اِن کیمرہ“ ہی ہوتا ہے۔ یہ پارلیمانی نظام ہی کا بنایا ہوا ایک اصول ہے۔ کسی غیر منتخب ادارے کی تخلیق نہیں۔ سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی برہمی لہٰذا برحق ہے۔ ان سینیٹرز کے خلاف انہیں کوئی انضباطی یا تادیبی فیصلہ ہر صورت لینا چاہیے جو ایوانِ بالا میں چار گھنٹوں تک پھیلی آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد ٹی وی کیمروں کے روبرو آئے اور ”اِن کیمرہ“ ہوئی باتوں کو فرطِ جذبات کے مارے ٹی وی رپورٹروں کی طرح بیان کرنا شروع کر دیا۔
ہمارے عسکری ادارے ”حساس“ کہلاتے ہیں۔ معاملات کو ”خفیہ“ رکھنا وہ دفاعی تقاضہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات برحق کہ بسااوقات یہ ”حساسیت“ مضحکہ خیز بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طورپر آج بھی آپ کو پاکستان میں کئی پلوں کے ساتھ ایک بورڈ دکھائی دیتا ہے جو اس پل کی تصویر لینے سے باز رہنے کا حکم صادر کرتا ہے۔ وہی پل لیکن اسی مقام پر کھڑے ہوکر آپ سمارٹ فون میں Google Map والی App کھول کر فی الفور دیکھ سکتے ہیں۔
سفارت کاروں کی مختلف ممالک میں تعیناتی کے دوران اپنے ہیڈکوارٹر بھیجی رپورٹیں عموماً Cyber Code کے استعمال سے خفیہ بنائی جاتی ہیں۔ یہ کوڈ تقریباََ ہر دن بدلا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ متعارف ہوجانے کے بعد لیکن یہ فرض کرلیا گیا کہ سفارت کار خود کو ملی کوئی اطلاع Emailکے ذریعے سرعت کے ساتھ اپنے ملک بھیج سکتے ہیں۔ Wikileaksنے مگر امریکی سفارت کاروں کی جانب سے واشنگٹن بھیجی ہزار ہا Emailکو Hackingکے ذریعے برسرعام کر دیا۔ سفارت کاروں کے For Eyes Only والے تبصرے اور تجزیے خفیہ نہ رہے تو انٹرنیٹ کے موجد اور اس کے Toolsپر تقریباً اجارے کی قوت رکھنے والا امریکہ بہت شرمسار ہوا۔ Damage Controlکی خاطر اسے کئی ماہ ضائع کرنا پڑے۔ جن غیر ملکی رہ نماﺅں کی ”خفیہ“ مراسلات میں بھد اُڑائی گئی تھی انہیں راضی کرنے کو سوجتن اٹھانا پڑے۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ سینیٹ کو خارجہ معاملات کے بارے میں دی گئی بریفنگ میں کوئی سنسنی خیز اطلاعات ہرگز موجود نہیں ہوں گی۔ بہت احتیاط اور نپے تلے الفاظ کے ساتھ پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات کے بارے میں محض ایک عمومی جائزہ لیا گیا ہوگا۔ افتتاحی Presentation کے بعد یہ سینیٹرز کی ذمہ داری تھی کہ وہ ذہین سوالات اٹھاکر آرمی چیف کو چند ”حساس“ معاملات کے بارے میں تفصیلات یبان کرنے پر اُکساتے۔ میری اطلاع کے مطابق ایسے سوالات صرف فرحت اللہ بابر اور مشاہد حسین سید ہی نے اٹھائے۔ ان کے اٹھائے سوالات کے جوابات بہت طویل تھے۔ ان جوابات میں لیکن ہرگز کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے Breaking News کہا جا سکے۔
حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے چند سینیٹرز نے زیادہ توجہ خود کو تسلی دینے والے جوابات کے حصول پر مرکوز رکھی۔ ان سب کا تعلق خارجہ معاملات سے نہیں تھا۔ دھرنوں کی مبینہ سرپرستی کا ذکر ہوا اور ان خدشات کا اظہار کہ شاید عسکری قیادت پاکستان میں صدارتی نظام متعارف کروانا چاہ رہی ہے۔ اس نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہوئے سیاسی قیادت نے درحقیقت اپنی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔ ریاستی فیصلہ سازی کے عمل میں منتخب حکومت کی بالادستی کا تاثر نہ دے پائے۔
حکومت اور موجودہ سسٹم کی بقاءکے بارے میں اپنی خواہش کے مطابق جوابات حاصل کرنے کے بعد ان میں سے چند ایک سینیٹرز نے ٹی وی رپورٹروں کی طرح کیمروں کے سامنے Beepers دینا شروع کر دئیے۔ ان Beepers نے یقیناً عسکری قیادت کے ذہنوں میں موجود اس سوچ کو ”جائز“ بنا دیا ہو گا کہ "Bloody Civillies" اس قابل نہیں کہ انہیں ”حساس“ معاملات کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے۔ ان کے پیٹ ہلکے ہیں۔ ”خبر“ والی کسی بات کا پتہ چل جائے تو پھٹ پڑتے ہیں۔ کیمروں کے روبرو انہیں بیان کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین آئندہ کسی معاملے پر عسکری قیادت کو ”اِن کیمرہ“ بریفنگ کی دعوت دینے سے قبل اب سوبار سوچیں گے۔ اپنی خواہش کو معذرت خواہانہ انداز میں پیش کرنے پر مجبور ہوں گے۔
عسکری اداروں کے ہاں ٹھوس معلومات اکٹھا کرنے کی بہت مہارت ہے۔کافی محنت سے جمع ہوئی اطلاعات کو بہت غور کے بعد تجزیے کی صورت دی جاتی ہے۔ ان تجزیوں کی بدولت مختلف معاملات سے تعلقات کے ضمن میں Road Maps تخلیق کئے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کے ہاں تحقیق کی ایسی روایت موجود نہیں۔ Microsoft Power Points کی بدولت دی گئی بریفنگز، جن میں Charts،Pies اور Graphs کا استعمال ہوتا ہے بسااوقات ان کی سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہیں۔ ان سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔
جو بریفنگ آپ کے روبرو رکھی جائے اس میں سے جھول ڈھونڈکر ذہین سوالات اٹھانا صرف اسی صورت ممکن ہے اگر آپ نے متعلقہ موضوع پر خود بھی کوئی ٹھوس Home Work کر رکھا ہو۔ میں نے بیشتر سیاستدانوں کو ایسے ”کلرکانہ کاموں“ سے لیکن حقارت بھری دوری برتنے کا عادی دیکھا ہے۔ اپنے تجزیے کی بناءپر مجھے پورا یقین ہے کہ منگل کے روز ہوئی بریفنگ کے ذریعے ہمارے نمائندگان افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں دن بدن بڑھتی سنگینی کو ٹھوس انداز میں سمجھ نہیں پائے ہوں گے۔ اسی باعث تو زیادہ تر سوالات دھرنوں کی مبینہ سرپرستی تک محدود رہے۔ ایک تاریخی موقعہ ضائع ہوگیا۔ اس زیاں کا ذمہ دار مگر عسکری قیادت ہرگز نہیں ہے۔ آرمی چیف تو بہت ہی کھلے ذہن کے ساتھ ہر سوال کا جواب دینے آئے تھے۔
منگل کے دن چند سینیٹرز کی دکھائی حماقتوں کے باوجود مگر رضا ربانی جیسے افراد کو سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین مزید اور مسلسل رابطوں اور تبادلہ خیال کو مستحکم روایت کی صورت دینے کی کوشش جاری رکھنا ہو گی۔ پاکستان کے گرد بھارت اور امریکہ کے اشتراک کے ساتھ جو جال بچھایا جا رہا ہے اسے بخوبی جاننا ہر ذی شعور شہری کی ذمہ داری ہے۔ عسکری قیادت بہت منظم ہے۔ وہاں Institutional فیصلہ سازی کی روایت بہت مستحکم ہے۔ اس کے باوجود عسکری قیادت اور ادارے عقل کل ہرگز نہیں۔ ذہین او رسنجیدہ سوالات کے ذریعے انہیں Do More کہتے رہنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭