محبت انسانی حدود میں سردارجذبہ ہے۔صدیوں سے یہ حذبہ دلوں پر راج کر رہا ہے۔ محبت فاتح عالم یونہی تونہیں کہا جاتا۔ اس کی آفاقیت روز روشن کی طرح عیاں ہے خدا جب کسی پر بہت مہربان ہوتا ہے تواس کے دل میں محبت اتار دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ کہ جن کی آنکھوں میں خوابوں کے دئیے جلتے ہیں۔ پھرمحبت خوابوں کے رتھ پر سوار ہوکر اپنا سفر طے کرتی ہے۔ اس سفر میں کب کس کا ہاتھ چھوٹ جائے کچھ خبرنہیں ہوتی…کبھی اصول زندہ رہ جاتے ہیں کبھی محبت جیت جاتی ہے۔
محبت کی بڑی بڑی عجیب کہانیاں اس دھرتی پر رونما ہوئی ہیں ایسی ہی ایک ناقابل فراموش داستان ہمارے پیارے قائداعظم کی بھی ہے کہ جس کے انمٹ نقوش تاریخ کے پنوں پر موجود ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی میں محبت کی مثلث ان کی بیوی اور بیٹی کے گردگھومتی ہے یہ تین محبتوں کی کہانی ہے ۔ قائداعظم کواپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ قائداعظم سے شادی سے پہلے وہ پارسی خاندان سے تھیں۔ وہ انتہائی حسین پڑھی لکھی حاضر جواب اور ذوق جمال سے مالا مال خاتون تھیں۔ یہ وہ وقت ہے جب قائد مسلمانان ہند کو آزادی کے لئے تیارکر رہے تھے۔ ان کی روشن آنکھیں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کے خواب سے مخمور تھیں اور قائداعظم مختلف تقاریب میں برصغیر پاک و ہند کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کر رہے تھے۔ انہی تقاریب کے دوران قائداعظم کی ملاقات رتی ٹپیٹ سے ہوتی ہے۔ وہ قائداعظم کی ساحرانہ شخصیت سے متاثر ہوتی ہیں۔ قائداعظم بھی ان کی ذہانت اور خوش ذوقی کو سراہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد رتی اسلام قبول کر لیتی ہیں اور اپنے پارسی خاندان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔ قائد ان سے شادی کر لیتے ہیں‘ یہ محبت کی ایک کامیاب شادی تھی۔ شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام دینا جناح رکھا گیا۔ قائداعظم اور ان کی اہلیہ رتی (اسلامی نام مریم جناح) کی محبت کو ایک نیا موڑ مل گیا۔یہ تحریک پاکستان کے عروج کا دور تھا۔ اعلیٰ مقصد کا حصول قائداعظم کی جدوجہد اور سیاسی سرگر میوں میں مصروفیت کی وجہ سے آپ اپنے گھر والوں کو وقت نہیں دے پاتے تھے۔ لہٰذا شوخ طبیعت مریم جناح جوکہ نجانے کتنے خواب آنکھوں میں بسا کر قائد کی زندگی میں شامل ہوئی تھیں بیمار رہنے لگیں اور انیس سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ بانی پاکستان کو لوگوں نے بس ایک بار روتے دیکھا اور وہ مریم جناح کی وفات کا موقع تھا۔ اہلیہ کی وفات کے بعد قائداعظم نے اپنی بیٹی کو بہت وقت دیا وہ اپنی بیٹی اور بہن کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اصرار پر واپس آنا پڑا۔ انہوں نے بمبئی میں ساؤتھ کورٹ کے نام سے اپنی رہائش گاہ بنا لی اور یہیں رہنے لگے۔ یہاں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ممبئی میں ان کی بیوی کی قبر تھی جہاں 1947 تک ہر جمعرات کو فاتحہ خوانی کے لئے جایا کرتے تھے۔قائداعظم کو اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح (مادر ملت) سے بھی بے پناہ محبت تھی۔ وہ ان کی چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں۔ بہن بھی بھائی پر جان نچھاورکرتی تھیں۔ وہ سائے کی طرح قائد کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں حتیٰ کہ ان کا کھانا بھی پہلے خود چکھتیں تھیں۔ قائداعظم نے اپنی بیٹی کی ذمہ داری اپنی بہن کے سپرد کردی اور کہا کہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ دینا کو قرآن پاک بھی پڑھایا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی تحریک پاکستان کی اہم رکن تھیں دشمنوں کی سا زشوں اور انگریزوں کی چالبازیوں کو دیکھتے ہوئے وہ کسی طور اپنے پیارے بھائی سے جدا نہیں رہتی تھیں لہٰذا بچی کی طرف زیادہ توجہ وہ بھی نہ دے پائیں اور دینا اپنے ننھال سے زیادہ قریب ہوگئی یہ قربت انہیں اپنے باپ سے دور اور پارسی خاندان کے زیادہ قریب لے گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دینا نے ایک پارسی لڑکے نیول واڈیا سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ قائداعظم کو جب یہ بات معلوم ہوئی توآپ نے بیٹی کو روکنے کی کوشش کی۔ مگروہ نہ مانی۔ اس پر آپ نے اپنی لاڈلی بیٹی سے منہ موڑ لیا اور اپنی ساری توجہ اسلامیان ہند کی طرف مرکوزکر لی اکثر ماں باپ اپنی اولاد کی خواہشوں کے آگے جھک جاتے ہیں کچھ بھی ہوجائے ماں باپ اپنے بچوں سے جدا نہیں ہو سکتے ذرا تصور کیجئے قائداعظم نے زندگی کا یہ سب سے بڑا صدمہ کیسے سہا ہوگا۔ وہ مسلمانوں کے لیڈر تھے ان کی بیٹی کی طرف سے جو دھچکا ان کو لگا وہ بہت بڑا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کئی غزوات میں باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے مقابل آیا اور حق نے ہمیشہ باطل پر فتح حاصل کی۔ ضبط کی انتہاؤں سے گزرنے والے دینا کے آہنی اعصاب والے بابا کو اللہ نے بابائے قوم بنادیا۔مگر محبت کا سفرہمیشہ جاری رہتا ہے کچھ محبتیں فطری ہوتی ہیں یہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اصول اپنی جگہ محبت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ 1938کے بعد دینا کبھی اپنے والد سے نہیں ملیں لیکن دوری کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے۔ وہ بھی قائد کی بیٹی تھیں۔ اپنی شادی کی ناکامی کے باوجود کبھی باپ کے در پر دوبارہ نہیں آئیں نہ والد کی طرف سے ملاچیک وصول کیا۔ قائداعظم ممبئی سے شفٹ ہوتے وقت ہر وہ چیز پاکستان لے آئے تھے جو انہوں نے دینا کی فرمائش پر خریدی تھی۔ انہوں نے یہ ساری چیزیں اپنی رہائش گاہ فلیگ سٹاف ہاؤس اور گورنر جنرل ہاؤس میں سجا دیں۔ دینا بس دوبار پاکستان آئیں ایک اپنے والد کی وفات کے موقع پر اور دوسرا 2004 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر۔ اس وقت دینا نے کہا کہ میں محمد علی جناح کی بیٹی ہوں اور ان سے بے حد محبت کرتی ہوں اسی لئے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں مگر میں ان کے نام سے کوئی شہرت نہیں کمانا چاہتی وہ فلیگ سٹاف ہاؤس اور گورنر جنرل ہاؤس کراچی بھی گئیں وہاں موجود ایک ایک چیز کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگئیں وہ ہر چیزکو چھوکر کہتیں۔ مائی فادر! اور اپنی آنکھوں سے اشک بھی صاف کرتی جاتیں وہ اپنی وفات تک اپنے ماں باپ کی محبت میں مبتلا رہیں۔ انہوں نے کبھی ان کے نام سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ اپنے والد کی وراثت سے بھی محروم رہیں۔ 80سال کی طویل دوری انہوں نے کیسے سہی یہ وہی جانتی ہیں۔ بابائے قوم کی بیٹی نے جب بابائے قوم کے مزار پر حاضری دی تو مہمانوں کی کتاب میں لکھا یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن ہے۔ ان کے خواب کو پورا کیجئے۔ جاتے ہوئے ان کے آخری الفاظ تھے۔ بابا کا دیس پیارا لگا۔ تاریخ کے اوراق پر مائی ڈارلنگ پاپا کہنے والی بیٹی کا پیار امر ہوگیا!!!