اسلام آباد(آن لائن)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بنگلہ دیش کے پاس ایک جبکہ پاکستان کے پاس دو شپ یارڈ تھے،آج پاکستان وہیں کھڑا جبکہ بنگلہ دیش کے پاس 23 شپ یارڈ ہیں، اربوں ڈالر کا نقصان کیا گیا، مزید شپ یارڈ کیوں نہیں بنائے گئے، پاکستان ایشیئن ٹائیگر ہے، ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟ بھارت کے پاس آزادی کے وقت پانچ تھے آج46شپ یارڈز ہیں۔کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم سمیت کمیٹی کے اراکین نے برہمی کا اظہار کیا اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔گوادر پورٹ میں آج پاکستان کو درجنوں شپ یارڈ کی ضرورت ہے مگر ہم دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ روز اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا۔ سینیٹر ستارہ ایاز ،سینیٹر مولانا حافظ حمد اللہ،سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ،سینیٹر نزہب صادق اور سینیٹر روبینہ عرفان بھی موجود تھیں۔کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے پاکستان اگر مزید شپ یارڈ بناتا تو گوادر پورٹ جیسے میگاپروجیکٹ میں نہ صرف پاکستان معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہوتا بلکہ دیگر شپ یارڈ کی مرمت اور تزئین وآرائش کے لئے تمام داخلی وخارجی راستے پاکستان سے ہوکر گزرتے ہیں اور اس میں ہم کروڑوں ڈالر پاکستان کو انکم کی مد میں حاصل ہوتے ہیں۔کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ پاکستان اقتصادی اور معاشی لحاظ سے مستحکم ہورہا ہے،کمیٹی کو پاک بحریہ کے افسران نے جہاز سازی کے امور پر تفصیلی بریفنگ دی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ جہاز سازی کے حوالے سے چین اور ترکی سے تعاون مل رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اگست میں سب سے بڑا ری فیولر تیار کرکے سمندر میں اتارا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جہاز سازی کے حوالے سے خود انحصاری سے مالامال کیا جائے گا۔حکام نے بتایا کہ فاسٹ اٹیک میزائل کے بوٹ کی تیاری کا عمل جاری ہے،اسے 2019ء میں مکمل کرلیا جائے گا،پاک بحریہ کے لئے دو پل ٹگ بھی آئندہ سال کے وسط میں فراہم کریں گے،پاک فوج کے لئے بھی 22ایلمونیم بوٹس تیار کر رہے ہیں جبکہ15ایلمونیم بوٹس دے دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہازوں کی مرمت کے سلسلے میں 10سال میں 198 جہازوں کی تزیئن وآرائش کی گئی ہے۔