سقوط ڈھاکہ، کچھ غلطیاں کچھ اسباق!

Dec 22, 2018

ڈاکٹر احمد سلیم

سقوط ڈھاکہ کیوں ہوا؟ مجیب الرحمٰن غدار تھا ، اسکے چھ نکات کہاں سے آئے تھے اور اس سب میں مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کا کردار کیا تھا اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہر بر س لکھا جاتا ہے۔ بھارتی مداخلت اور مجیب بھارت گٹھ جوڑ ایک حقیقت ہے لیکن یہ مطالعہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے بھی کوئی ایسی سیاسی اور فوجی غلطیاں کی تھیں جنھوں نے مجیب اور بھارت کو پاکستان پر کاری وار کرنے کا موقع پلیٹ میں رکھ کر دے دیا۔ اگر اس جنگ کے بارے میں کچھ فیصلے وقت پر اور درست سمت میں کیے جاتے تو کیااس جنگ کا نتیجہ مختلف نکل سکتا تھا؟ کسی بھی قوم کے لیے کوئی سانحہ ہو جانا اپنی جگہ لیکن اگر اس سانحے سے وہ قوم سبق حاصل نہیں کرتی اور اپنی غلطیوں کو پہچان کر انہیں درست نہیں کرتی تو یہ اصل سانحے سے بھی بڑا ایک سانحہ ہوتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ جو سیاسی زیادتیاں ہوئیں وہ ایک حقیقت ہے۔ سب سے پہلا مسئلہ جو پیدا ہوا وہ ’’ بنگالی زبان‘‘ کو ’’سپیشل سٹیٹس‘‘ دینے کا مطالبہ تھا۔ مغربی پاکستان صر ف اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار تھا۔ 1948 میں ہی مشرقی پاکستان کے عوام نے کرنسی نوٹوں اور ڈاک کی ٹکٹوں سے بنگالی زبان کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔اس تحریک (بھاشا اندولن) کو عروج 21 فروری 1952 کو ملا جب پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنیوالے طلبہ پر گولی چلا دی اور دو طالب علم ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ ( اس واقعہ کی یاد میں 1999 سے آج تک UNESCO،21 فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔) حالانکہ ایک ملک کے لیے ایک سے زیادہ قومی یا دفتری زبانیں رکھنے میں کوئی ایسی بڑی قباحت نہیں تھی۔ خاص طور پر اس وقت جب مغربی حصے میں کسی صوبے کی زبان اردو نہ تھی اور مشرقی حصے کی آبادی متحدہ پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ تھی۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955-60 کے پانچ سالہ منصوبہ میں 55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔
1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نیشنل اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی حکومت نے اپنے تحفظات کی بنا پر مجیب کو حکومت دینے سے انکار کر دیا۔ 25 مارچ 1971 کو اس وقت کی فوجی حکومت (جنرل یحییٰ) نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ( آپریشن سرچ لائیٹ) کا آغاز کر دیا۔ یہ آپریشن مکتی باہنی اور اس پارٹی کے خلاف تھا جسے مشرقی پاکستان میں مکمل عوامی حمایت حاصل تھی۔عوامی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے یہ آپرشن اپنے مقاصد تو حاصل نہ کر سکا لیکن اسکی وجہ سے بنگالی عوام کی احتجاجی تحریک مکمل طور پر تحریک آزادی بلکہ جنگ آزادی میں تبدیل ہو گئی اور بنگالی عوام کا جو حصہ متحدہ پاکستان کے حق میں تھا وہ بھی اس فوجی آپریشن کے بعد پاکستان کے خلاف ہو گیا۔
فوجی میدان میں بھی پاکستانی قیادت نے اس وقت کسی بھی طرح سمجھداری اور فراست کا ثبوت نہیں دیا۔ بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مانک شا کے مطابق ضرورت پڑنے پر پاکستان پر ایک مکمل حملہ کرنے اور مکمل جنگ کرنے کا فیصلہ بھارت کی وزیر اعظم اندرہ گاندھی نے اپریل 1971 میں ایک کیبنٹ میٹنگ میں کر لیا تھا جس میں مانک شا کے علاوہ فارن منسٹر سردار سورن سنگھ، وزیر دفاع جگ جیون رام، وزیر زراعت فخرالدین علی اور وزیر مالیات یشونت رائو موجود تھے۔ معلوم نہیں کہ ہماری انٹیلی جنس کو یہ معلومات نہیں ملی تھیں یا ہماری قیادت نے ان معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا؟ ہم نے امریکہ اور اپنے دوست ممالک چین اور ایران کی باتوں پر بھی دھیان نہیں دیا جو شروع سے ہم پر اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کا زور دے رہے تھے۔ نومبر آخر سے بھارت واضح طور پر بین القوامی سرحد عبور کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ ہماری قیادت نے یہ بہانہ اس وقت فراہم کر دیا جب پاکستان نے تین دسمبر کو مغربی محاذ پر بھارت پر زمینی اور فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو کہ کہ مشرقی حصے میں افواج پر سے پریشر کم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس وقت کی پاکستان حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی حصے سے کیا جائے ۔ یہ دونوں مقاصد تو حاصل نہ ہو سکے لیکن بھارت کو انٹر نیشنل بارڈر کراس کر کے پاکستان پر حملہ کرنے کا اخلاقی جواز مل گیا اور ملک کے دونو ں حصوں میں مکمل جنگ شروع ہو گئی۔
اول تو ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں کرنے کی پالیسی ہی احمقانہ تھی اور اگر کوئی ایسا کام کرنا ہی تھا تو اس کے لیے لیے بھی ہماری قیادت بہت دیر کر چکی تھی۔ اس قسم کا کوئی قدم اٹھانا تھا تو اسکا درست وقت اپریل سے جون کے مہینے تھے۔ اپریل کے ماہ میں ہمالیہ کے راستے کھلے ہوتے ہیں اور اگر پاکستان کی مدد کے لیے چین عملی اقدام کرنا چاہتا تو اسکے پاس راستہ تو تھا۔ دسمبر میں چین اگر چاہتا بھی تو اسکی افواج کے پاس پاکستان تک پہنچنے کے راستے بند تھے۔ اس کے علا وہ 1971 کے آغاز میں بھارتی سینا کا بڑا حصہ آسام، آندھرا پردیش اور جھانسی بابینہ کے علاقوں میں تعینات تھا۔ پنجاب ہریانہ اور اتر پردیش میں فصلوں کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی تو بھارت کو اپنی فوج کی نقل و حمل کے لیے جس پیمانے پر ریل اور زمینی ٹرانسپورٹ درکار تھی اس سے بھارت کی فصلوں کی کٹائی شدید متاثر ہوتی اور اسے قحط کا سامنا کر نا پڑ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں اپریل مئی کے مہینوں میں مشرقی پاکستان میں مون سون کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے دریا سمندر بنے ہوتے ہیں اور زمین دلدل ۔ جب بھارت پاکستان سے جنگ کا فیصلہ کر ہی چکا تھا تو پاکستان کو اس کے لیے وقت اپنی پسند کا چننا چاہئیے تھا اور ۳ دسمبر کو جو حملہ ہم نے کیا وہ بہت پہلے یعنی اپریل یا مئی میں کرنا چاہئیے تھا۔ ایسے میں بھارت کی شکست یقینی ہوتی۔ پاکستان کی حکومت نے جس غلط وقت پر مغربی محاذ کھولنے کی حماقت کی تھی اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز سب کچھ بھارت کی مرضی سے کر رہے تھے۔ اندرا گاندھی نے جو کہا تھا کہ اب ہم اپنی مرضی کے وقت پر اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے وہ سچ ثابت ہو رہا تھا۔ مرضی، پلاننگ اور وقت بھارتیوں کی مرضی کا تھا لیکن محاذ پاکستانی حکومت کھول رہی تھی۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا بڑا کردار تھا اور بھارتی قیادت کو آج بھی پاکستان کا وجود گوارا نہیں ہے لیکن بھارت کے خلاف واویلا کرنے سے زیادہ اہم ہے کہ ہم حمود الرحمٰن کمیشن کی رپوٹ سامنے لانے کا مطالبہ بھی کریں اور ساتھ ہی 1948سے 1971کے درمیان ہونے والی اپنی سیاسی اور فوجی غلطیوں کا سنجیدہ اور تفصیلی مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔ ہمارا دشن تو ابھی بھی تاک میں بیٹھا ہے۔

مزیدخبریں