میرے دوہی ٹھکانے ہیں۔ گھر میں ہوتا ہوں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں پڑا رہتا ہوں۔ وہیں کھاتا پیتا ہوں۔ وہیں سو جاتا ہوں۔ وہیں پڑھ لیتا ہوں اور لکھ بھی لیتا ہوں۔ میں نے نوائے وقت میں بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں کالم لکھے ہونگے۔ بیشتر اسی کمرے میں اسی چارپائی پر بیٹھ کر لکھے۔میرا تو اب کام ہی صرف کالم لکھنا رہ گیا ہے۔ اب ہمارے بہت سے تقریباً سب کے سب اہل قلم دوست کالم لکھتے ہیں۔ اب کالم کو ’’قالم‘‘ کہنا چاہئے۔ میرے خیال میں کالم نگاری سالم نگاری ہے۔
برادرم شاہد رشید جمعہ کی نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو برادرم اکرم چودھری بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی مسجد میں نماز پڑھی۔ یہ مسجد جو اے زمان نے بنوائی تھی، وہ تحریک پاکستان کے بہت معروف کارکن تھے۔ مرشد و محبوب مجید نظامی نے اس مسجد کا نام ہی زمان مسجد رکھ دیا تھا۔ مجید نظامی نوائے وقت کی مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی یہاں زمان مسجد میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ تقریباً روزانہ تشریف لاتے تھے اور نوائے وقت جانے سے پہلے تشریف لاتے تھے۔ میں ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتا ۔ انہیں دیکھتا رہتا تھا اورسنتا رہتا تھا۔ جب وہ فوت ہوئے تو میں نے یہ خواہش کی کہ انہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی مادر ملت پارک میں دفن کیا جائے۔ انہوں نے مادر ملت سے بہت عقیدت رکھی بہت محبت کی۔ صدر ایوب کے ساتھ مادر ملت کے صدارتی الیکشن میں مادر ملت کی ناقابل شکست حمایت کی۔ انہیں دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ یہ حادثہ پاکستان کے ٹوٹنے سے بڑا سانحہ تھا۔ پھر مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش نہ بنتا۔ مادر ملت مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں۔
آج نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں بیٹھے بیٹھے نجانے میں کہاں کہاں نکل گیا ہوں۔ میں یہاں آتا ہوں۔ بیٹھتا رہتا ہوں۔ مجید نظامی کی خوشبو چاروں طرف پھیلتی رہتی ہے۔ برادرم شاہد رشید یادوں میں گِھرا ہوا اس نظریاتی گھر کو آباد رکھنے کے لئے دن رات کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس محبوب احمد بھی آج مسجد سے سیدھے یہاں تشریف لائے تھے وہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ یہاں جو بھی تقریبات ہوتی ہیں وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے منعقد ہوتی ہیں۔
جسٹس محبوب احمد اسم بامسمہ ہیں۔ وہ ا پنے نام کے معانی جانتے ہیں۔ ان کی محبت کو یہاں ہر آدمی نے محسوس کیا ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن بھی باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں۔
میں شہر لاہور میں بہت تقریبات میں حاضر ہوتا ہوں۔ مجھے ادبی محفلیں بہت پسند ہیں۔ محفلیں ہوتی رہتی ہیں مگر مجید نظامی کے قائم کردہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں محفلوں کا تسلسل ایک نعمت کی طرح ہے۔ برادرم شاہد رشید اس کے لئے بہت ذوق و شوق سے اور بہت جذبے اور ولولے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ یہ کہہ دیا تھا کہ شاہد رشید کے علاوہ کوئی بھی اس طرح نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو نہیں چلا سکتا۔ انہیں محترمہ ر میزہ نظامی کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہاں نوائے وقت کی بھی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے۔ ایڈیٹوریل انچارج معروف ادیب شاعر اور ممتاز کالم نگار سعید آسی بھی مختلف تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ ماحول بہت گھریلو ہے۔ سب لوگ ایک خاندان کے افراد کی طرح رہتے ہیں۔
مجھے پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر ریاض مسعود نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کہا تھا کہ پی ٹی وی ملازمین کے بقایا جات اور ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ادائیگیوں میں ٹال مٹول کر رہا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے عمر بھر پی ٹی وی کے لئے دن رات کام کیا، اب پریشان ہیں۔ میں نے ا پنے ایک کالم میں پی ٹی وی کے منتظمین سے گزارش کی تھی ا ور انہوں نے تمام ادائیگیاں کر دی تھیں۔ جس سے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچا تھا۔
اب ریاض مسعود نے 2016ء کے بعد ریٹائر ہونے والوںکی ایک مشکل صورتحال کا ذکر کیا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالم کی وجہ سے اُن کے مسائل میں کمی آ جائے گی۔ میں کالم کے ذریعے پی ٹی وی کے اکابرین سے دوبارہ التماس کرتا ہوں کہ وہ اپنے ملازمین پر رحم کریں اور انہیں ادائیگی ضرور کریں، ان کا جو حق ہے۔ اس طرح وہ اطمینان سے باقی ماندہ ز ندگی گزار سکیں گے اور اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے بھی سُکھ کا سانس لیں گے۔