’’  محکمہ پولیس کے روشن ستارے‘‘

اچھے اور برے لوگ ہر شعبہ میں ہوتے ہیں مگر اچھے لوگ ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ یاد تو خیر برے لوگ بھی آتے ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ دنیا والے اچھے لوگوں کو اچھے لفظوں میں اور برے لوگوں کو انکے برے کاموں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پولیس کے شعبہ میں اکثریت برے اور بد اخلاق لوگوں کی ہے جو ظلم و زیادتی اور کرپشن کو ہی اپنا سب کچھ مانتے ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پولیس کو عوام دوست نہیں بنایا جا سکا۔ آج کے دور میں تھانے کے اندر جانا تو بہت دور کی بات ہے ، شریف آدمی تو باہر سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے ۔جہاں پولیس کے شعبے سے وابستہ کالی بھیڑوں کا برے الفاظ میں ذکر ہوتا ہے وہاں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے محکمے کا نہ صرف بہترین تعارف بنے ہوئے ہیں بلکہ عوام ایسے پولیس آفیسر کو سیلیوٹ کے ساتھ خراج تحسین سے اکثر نوازتے رہتے ہیں۔اچھے اور محنتی پولیس آفیسر کی ترقی اور ایمانداری سے کام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کا سیاسی کلچر ہے جو ہر تھانے میں اپنا رول پلے کر رہا ہے۔آج سے کئی سال قبل بھائی پھیرو/ پھول نگر میں بہت سارے ایسے تھانیدار تعینات ہوئے جنہوں نے اپنے سر پر کفن باندھ رکھے تھے ۔جو  اپنے فرائض میں کسی قسم کی کوئی غفلت اور کسی کی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے تھے  اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تھانہ بھائی پھیرو کو منشیات کی خریدو فروخت کے لحاظ سے سہراب گوٹھ کا نام دیا جاتا تھا ۔ایسے حالات میں ان چند تھانیداروں کا ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں جنہوںنے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور ایمانداری کا دامن تھامے رکھا۔ تھانہ بھائی پھیرو میں آج سے تیس سال قبل جب اس علاقہ میں منشیات فروشی اور دیگر جرائم کا بازار گرم تھا ، چوری چکاری اور ڈکیتی کی وارداتیں عام ہونے لگی تھیں اور ان تھانوں میں جھوٹے مقدمات کا اندراج بھی روز کا معمول تھاجہاں کے شہری پریشانی کے عالم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔توان حالات میں اس  وقت ملک عطا محمد نیازی شکاری کتوں والاجو کہ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، کی تعیناتی ہوئی جنہوں نے آتے ہی  بڑے بڑے منشیات فروشوں کو پکڑ کر ان کے قبضہ سے بھاری مقدار میں نہ صرف منشیات برآمد کی بلکہ ان منشیات فروشوں سے لاکھوں روپے اکٹھے کر کے تھانے کے احاطہ کے اندر ایک مسجد تعمیر کروائی ۔ مسجد کی تعمیر کا ذمہ مقامی نامہ نگار نوائے وقت سرائے مغل ڈاکٹر عبدالمجید اختر مرحوم کو سونپ دیا جنہوں نے تعمیر میں بھر پور ذمے داری ، انتہائی ایمانداری سے انجام دی۔ آج یہ مسجد بھائی پھیرو کی عالی شان مسجد ہے۔اس کے بعد ایک اور ایس۔ایچ۔او چودھری محمود سردار جوکلاشنکوفوں والا کے نام سے مشہور تھا اسی تھانہ میں آکر تعینات ہوا جس کو یہاں کی عوام آج بھی اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہے۔ موصوف جتنی دیر تک بھی اس تھانے میں رہے کسی سیاسی وڈیرے کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا انہیں کلاشنکوفوں والا اس لیے کہا جاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں اس وقت کے آئی جی پنجاب نے دو پولیس کانسٹیبل ان کے تحفظ کے لیے بطور سیکیورٹی گارڈ تعینات کیے۔ یہ جہاں بھی ، جس تھانے جاتے یہ دو کلاشنکوفوں والے ان کے ساتھ جاتے ۔اس کے بعد ایک ایس ایچ او تھانہ پتوکی میں ایسا بھی آیا تھا جس کا نام شفقت باری تھا ۔ اس نے چارج سنبھالتے ہی شہر کی مسجدوں میں اعلان کروا دیا تھا کی آج کے بعد شہر کے تمام لوگ اپنے گھروں کے دروازے اور دکانوں کے شٹر کھلے چھوڑ کر سوئیں، اگر کسی کے گھر یا دکان میں چوری ہو جائے تو تھانے آکر مجھ سے لے جائے۔ اس کا تبادلہ رکوانے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے تھانے کے باہر آکر دھرنا دیا۔ شہر کئی روز تک بند رہا، پھر دوبارہ افسران کو شفقت باری کو اسی تھانے میں تعینات کرنا پڑا۔اب آج کے دور کے نڈر ہیرو ایس۔ ایچ۔او محمود الحسن سندھو کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔ اب اس شہر کے لوگ بھی ان کے تبادلہ کے بعد آج بھی یہ خواہش لیے ہوئے  ہے کہ ان کی تعیناتی  پھر سے یہاں پر ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن