وفاقی وزیر فرخ نسیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپیشل کورٹ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کو توڑنے پر ٹرائل کررہی تھی۔ پیرا نمبر 66 میں جسٹس وقار نے لکھا ہے کہ ہم اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کر لیں۔ لیکن اگر گرفتاری سے قبل ان کی وفات ہو جائے تو اس کی لاش کو سڑک پر گھسیٹا جائے اور بعدازاں تین دن تک اسلام آباد چوک میں لٹکایا جائے۔ وزیر قانون نے انکشاف کیا ہے کہ ایسے کسی بھی جج کو سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالت میں ججی سے ہٹایا جائے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ دماغی طور پر درست نہیں ہیں۔ انہوں نے پرویزمشرف کی لاش کو تین دن تک اسلام آباد چوک میں لٹکانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کس قانون کس قاعدے اور کس ضابطے کے تحت یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔ یہ پیرا 66 چار سطروں پر مشتمل ہے۔ یہ پیرا کسی قانون کے تحت جائز نہیں ہے۔ لاش کو لٹکانے کا پیرا غیر قانونی ہے۔ تین ججوں کے پینل میں دو ججوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ لاش کو لٹکانا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ وفاقی وزیر شہزاد اکبر نے اعلان کیا ہے کہ ایک جج نے انٹرنیشنل لاء کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ کسی شخص کی لاش کو پھانسی پر لٹکانا غیر قانونی ہے۔ یہ فیصلہ پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اس جج کو فوری طور پر عدالت میں کام کرنے سے روک دیا جائے ۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔ سینئر قانون دان حامد خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں اعلان کیا ہے کہ پرویز مشرف بغیر حکومتی اجازت کے بیرون ملک گئے ہیں۔ عدالت نے انہیں چھ مرتبہ موقعہ دیا کہ وہ عدالت میں حاضر ہوں لیکن وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔ اسی لیے ان کی غیر حاضری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی غیر حاضری میں فیصلہ دیا جا رہا ہے۔ یہ بیان غلط ہے۔ عدالت نے پرویز مشرف کو چھ بار عدالت میں حاضر ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی ہدایت کی تھی لیکن وہ چھ بار پیش نہیں ہوئے لہٰذا عدالت دفعہ 342 کے تحت ان کا حقِ بیان ختم کر چکی تھی۔ جسٹس (ر) کلیم شاہ (آزاد کشمیر) نے اعلان کیا ہے کہ اسلام سے پہلے لاشوں کی توہین کرنا جائز سمجھا جاتا تھا لیکن حضورؐ نے مرنے کے بعد لاش کا احترام کرنا لازم قرار دیا۔ مجھے حیرت ہے کہ محترم جج صاحب نے اسلامی تعلیمات کے خلاف یہ فیصلہ کیسے دیا۔ یہ فیصلہ عالمی پس منظر میں ہمارا منہ کالا کرتا ہے۔ ہم نے قرآن کا مطالعۂ نہیں کیا جہاں مرنے والے کی لاش کو احترام دینے کی آیات ہیں۔ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے ٹیلی وژن کے ایک چینل پر اعلان کیا ہے کہ کسی مردہ شخص کو پھانسی پر لٹکانا غیر قانونی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ایک جج نے اس سنگین غداری کے مقدمے میں مردہ شخص کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ذیل میں آتا ہے۔سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جج صاحب نے نجانے کیوں یہ پیرا گراف لکھا ہے کہ پرویز مشرف کے مردہ جسم کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ جج صاحب نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انور منصور اٹارنی جنرل نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس جج نے فیصلہ کرتے ہوئے غیر قانونی اقدام اٹھایا ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے انکشاف کیا ہے کہ بہت سال پہلے افغانستان سے ایک لیڈر کی لاش نکال کر اس کی توہین کی گئی تھی لیکن مجھے حیرت ہے کہ ایک جج نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی لاش کو اسلام آباد میں لٹکانے کا پیرا لکھا ہے۔ میں اس حکم پر عمل درآمد کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ جج کے خلاف ریفرنس دائرکیا جائے تاکہ انہیںملازمت سے برطرف کیا جا سکے۔ خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا قانون کے مطابق ہے۔ ماسوائے ایک پیراگراف کے جس میں لکھا گیا ہے کہ پرویزمشرف کی لاش کو اسلام آباد میں لٹکایا جائے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پبلک کے سامنے پھانسی اسلام اور دین کے خلاف ہے۔
پاکستان کی افواج کی جانب سے بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کی تین مرتبہ سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا ہے کہ خصوصی عدالت کی جانب سے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ کوافواجِ پاکستان نے شدید درد ار اضطراب سے لیا ہے۔ پرویز مشرف آرمی چیف اور ملک کے صدر رہے ہیں۔ انہوں نے چالیس برس تک ملک کی خدمت کی۔ وطن کے دفاع کے لیے جنگیں لڑیں۔ وہ یقیناً کبھی غدار نہیں ہو سکتے۔ انہیں غلط طور پر غدار قرار دیا گیا ہے۔ خصوصی عدالت نے ضروری قانونی تقاضے اور ذاتی دفاع کے بنیادی حق کونظرانداز کیا ہے اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے۔ مشرف کے خلاف کارروائی چلائی گئی اور مقدمہ کا عجلت میں فیصلہ دیا گیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں موت کی سزا سنائی ہے۔ یہاں یہ حقیقت بتانا ضروری ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت محکمہ داخلہ کو احکامات جاری کیا تھا۔ اس وقت کے سیکرٹری داخلہ مقدمہ کے مدعی بنے تھے۔تحقیقاتی ٹیم نے حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس کی روشنی میں عدالت نے پرویز مشرف کا ٹرائل کیا اور انہیں آئین توڑنے پر تین مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عوامی سطح پر بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ پاکسان کے مختلف شہروں میں مذکورہ فیصلے کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں فیصلوںکی مذمت کی گئی۔ پرویز مشرف کی لاش کو اسلام آباد میں تین دن تک لٹکانے کی مخالفت کی ہے۔ بعض مذہبی رہنمائوں نے بھی فیصلے پر اعتراضات اٹھائے گئے۔ مفتی نعیم نے اعلان کیا ہے کہ لاش کو گھسیٹنے اور تین دن تک لٹکانے کو قانونی طور پر جرم ہے اسلام میں پیرا 66 کی کوئی حیثیت نہیں۔ فاضل جج کر باز رہنا چاہئے تھا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات ہوئی ہے اور اس ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مذکورہ فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے گا اور اسے ختم کروایا جائے گا۔ حکومتنے اعلان کیا ہے کہ جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا کیونکہ ان کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر شرعی ہے۔ سابق صدر کے وکیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس فیصلے پر افسوس ہے۔ اس کیس کا فیصلہ بھٹو صاحب کے کیس سے بھی بُرا ترین ہوا ہے۔ فیصلہ کی مصدقہ نقل ملتے ہی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے؎
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
مشرف کو سزائے موت ، عوامی ردعمل اور حکومتی پالیسی
Dec 22, 2019