مشرف کیس کا فیصلہ اور نئے چیف جسٹس کا حلف

خصوصی عدلت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں آئین کے آرٹیکل 6کے تحت ’’سزائے موت ‘‘دینے کے فیصلے سے سیاسی و عسکری حلقوں کھلبلی مچ گئی ہے سیاسی حلقوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت دینے پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیاہے جب کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)ن نے ’’خاموشی‘‘ اختیار کر لی ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیا ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی ہے کہ ’’ انہوں نے تاحال عدالتی فیصلہ نہیں پڑھا ‘‘ در اصل میاں شہباز شریف جنرل پرویز مشرف بورے میں عدالتی فیصلے پر کوئی تبصرہ کرنے گریزاں ہیں ۔ البتہ فوج نے اپنے سابق سپہ سالار جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کے فیصلے کا سخت نوٹس لیا ہے اور اس فیصلہ پر دکھ ، تکلیف اور اضطراب کا اظہار کیا ہے لیکن تفصیلی فیصلہ آنے پر تو فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ان اداروں کو جو جنرل پرویز مشرف کی لاش گھسیٹ کر تین روز تک لٹکانے اور 5بار سزائے موت دینے کی خواہش رکھتے ہیں فوج کی جانب سے ایک سخت پیغام دیا ہے جس میں کہا ہے کہ’’تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے۔ ہمارے لئے ملک پہلے اور ادارہ بعد میں ہے لیکن ملک کے ساتھ ساتھ ادارے کا دفاع بھی کرنا جانتے ہیں ‘‘ حکومت جسٹس وقار احمد کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رہی ہے وزیر اعظم نے اپنی ٹیم کے لوگوں سے ملاقاتوں اور اجلاسوں میں اس فیصلے پر ’’ناپسندیدگی ‘‘کا اظہار کیا ہے۔ حکومت نے خصوصی عدالت کے خلاف اپیل میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق نے فیصلہ کے کچھ دیر بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’حکومت اپیل میں کیوں جائے؟ جنرل (ر) پرویز مشرف خود سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے لیکن اسی رات حکومت بھی گو مگو کی پوزیشن سے باہر نکل آئی اور فردوس عاشق اعوان ،اٹارنی جنرل منصور انور اور شہزادداکبر نے اسی رات جنرل (ر)پرویز مشرف کی حمایت میں پریس کانفرنس کر ڈالی نہ صرف کھل کر جنرل (ر)پرویز مشرف کی وکالت کی بلکہ خصوصی عدالت کے فیصلہ کے خلا ف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں بارہا جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے بیانات جاری کرتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ بھجوایا تھا لیکن اب وہ بھی اس کا فیصلہ آنے پر خاموش ہے۔ اپوزیشن حلقوں میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا جارہاہے اور وہ مشرف کوسزا جمہوریت کی فتح قرار دے رہی ہے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ کھل کر اظہار یک جہتی کیا ہے اور اپنے قبیلہ کے سالار کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔اس کے برعکس وفاقی سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چوہدری وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی طرح اپنے محکموں کی طرف کم توجہ دیتے ہیں ان کے درمیان ’’سیاسی‘‘ بیانات کا مقابلہ رہتا ہے۔ فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ ’’عدلیہ سے محاذ آرائی کی طرف نہیں جانا چاہیے عدلیہ کا کچھ حصہ بہت غصہ میں ہے غصہ صحیح بھی ہو سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے آپ غصہ میں آئیں گے تو دوسرا فریق بھی غصہ میں آسکتاہے جو کم تگڑا نہیں ‘‘ عدالتی فیصلہ پر آنے والے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے خصوصی عدالت کے فیصلے ریاستی اداروں میں خلیج بڑھے گی۔ اس فیصلہ کے ملکی سیاست پر دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر سینیٹر پرویز رشید نے نوائے وقت سے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اتنی قوت نہیں تھی کہ مشرف کو باہر جانے سے روک سکتی اور ہمارے کندھے ناتواں تھے جو یہ بوجھ نہ اٹھا سکے۔ انہیں باہر جانے کی اجازت دے دی گئی انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے بارے میں فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ میں اصولی طور سزائے موت کے خلاف ہوں، کسی کو موت کی سزا ہی نہیں چاہیے لیکن جنرل(ر) پرویز مشرف کا آئین پاکستان کا قصوروار ہے اس لحاظ سے پرویز مشرف سے متعلق فیصلے پر اطمینان ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے حق میں زوردار بیان جاری ہونے کے بعد حکومتی عہدیداروں کو بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کا دفاع کرنے کا حوصلہ ہوا خصوصی عدالت سے فیصلہ آنے سے قبل کوئی حکومتی عہدیدار جنرل (ر) پرویز مشرف کے حق میں کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن جوں ہی فوج کا موقف سامنے آیا تو حکومتی پالیسی بھی سامنے آگئی۔
خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا۔ وفاقی حکومت جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کے بارے میں ’’گومگو ‘‘ کی کیفیت میں مبتلا تھی لیکن سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو موت کی صورت میں ان کی لاش گھسیٹ کر تین دن تک ڈی چوک میں لٹکائے جانے کے پیرا 66نے بھی وفاقی حکومت کو ایک’’ پوزیشن ‘‘ لینے پر مجبو کر دیا ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے حق میں جلوس نکالے جارہے ’’پاکستان آن موو‘‘ نامی تنظیم نے اسلام آباد کی شاہراہوں پر جنرل(ر) پرویز مشرف کے حق میں بل بورڈ لگا دئیے ہیں جس نے پہلے جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے قبل ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ کے بل بورڈ لگائے تھے ۔ اس وقت عمران خان خاصی مشکل میں ہیں وہ وزیر اعظم بننے سے قبل جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اب ان کو زمینی حقائق نے اپنے موقف میں تبدیلی لانا پڑی ہے خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے دئیے جانے والے فیصلہ کا پیرا66 نے سیاسی،قانونی و عسکری حلقوں کو حیران و ششدر کر دیا ہے دینی حلقوں کی جانب سے رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک مختصر لیکن جامع پریس کانفرنس میں کھل کر کہہ دیا ہے انہوں نے فیصلہ میں استعمال ہونے والے الفاظ انسانیت ،مذہب ، تہذیب اورقدار سے بالاتر قرار دیا اور بتایا ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیراعظم سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ اس بات چیت کے بعد وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم جو جنرل پرویز مشرف کے مقدمہ میں وکیل بھی رہے ہیں نے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ وفاقی حکومت نے اس فیصلہ کو ملکی و شرعی قوانین اور عالمی انسانی قوانین کے خلاف قرار دیا ہے، اور خصوصی عدالت کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس سیٹھ وقار کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحتسپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کو دی جانے والی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ بات قابل ذکر ہے جسٹس وقار احمد سیٹھ چوتھے جج ہیں جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے قبل ازیں جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہوا جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریفرنس دائر ہونے پر استعفاٰ دے دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما و ماہرقانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہوں، جس جج نے یہ فیصلہ دیا ہے اس کے خلاف آرٹیکل211کے تحت دیکھنا چاہیے کہ ان کا دماغی توازن درست بھی ہے یا نہیں۔خصوصی عدالت کا فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے جس کے پیرا 66میں جسٹس وقار احمد نے لکھا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف پھانسی سے پہلے انتقال کر گئے تو مجرم کی لاش ڈی چوک اسلام آباد لائی جائے اور 3دن تک لٹکائی جائے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف پر 5 چارج فریم کئے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے پانچ بار سزائے موت کا حکم دیا گیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس ہوا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ خصوصی عدالت کے جنرل(ر) پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد میرے اورعدلیہ کے خلاف تضحیک آمیزمہم چلائی گئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی الزام لگایا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات میں مشرف کیخلاف فیصلے کی حمایت کی، ہمیں اپنی حدود کا علم ہے ، سچ کا ہمیشہ بول بالا ہوگا‘‘۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں‘‘ اور کہا کہ میری اپروچ کو فہمیدہ ریاض کی نظم میں خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ ؎ تم اپنی کرنی کرگزرو جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ 11ماہ 2دن بعد چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائر ہو گئے ہیں ان کے دور میں اہم فیصلے ہوئے ہیں اب ان کی جگہ جسٹس گلزاراحمد نے لے لی ہے جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے دبنگ انداز میں شہرت رکھتے ہیں وہ 2فروری 2023ء تک چیف جسٹس رہیں گے۔ انہوں نے پانامہ لیکس کا تاریخی فیصلہ تحریر کیا تھا۔ انہوںنے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’آئین زندہ دستاویز ہے ،جسمیں پارلیمنٹ ، عدلیہ اورانتظامیہ کے اختیارات کاتعین کر دیا گیا ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ مستقبل میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات کار کیا رخ اختیار کرتے ہیں ؟

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن