صدر ڈاکٹر عارف علوی نے جنسی زیادتی کے معاملات کو جلد نمٹانے کیلئے آرڈیننس کی منظوری دی ہے۔ آرڈیننس کے تحت زیادتی کے ملزمان کے تیز رفتار ٹرائل اور کیسز کو جلد نمٹانے کیلئے ملک بھر میں سپیشل کورٹس بنائی جائیں گی۔ جس کے تحت خصوصی عدالتیں چار ماہ کے اندر جنسی زیادتی کے کیسوںکو نمٹائیں گی۔ وزیراعظم انسداد جنسی زیادتی کے سلسلے میں کرائسز سیل قائم کریں گے۔ کرائسز سیل چھ گھنٹے کے اندر میڈیکل و دیگر معائنہ کرانے کا ذمہ دار ہو گا۔ جنسی زیادتی کے متاثرین کی شناخت ظاہر کرنے پر پابندی ہو گی۔ آرڈیننس میں ریپ کے مجرم کو نامرد بنانے سے متعلق اس کی رضامندی حاصل کرنے کی شرط شامل نہیں۔
جرائم کی سزائوں کے حوالے سے پاکستان میں قوانین موجود ہیں۔ عدالتیں بھی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال تو اُٹھتا ہے کہ پھر خصوصی عدالتیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہی عدالتوں میں مقدمات کیوں نہیں لگائے جاتے جو دوسرے مقدمات سن رہی ہیں۔ اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ مقدمات کی بھرمار ہے ، فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے جبکہ زیادتی دہشتگردی یا منشیات کے مقدمات جلد فیصلوں کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان جیسے مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے خصوصی عدالتیں بنا دی جاتی ہیں۔
صدارتی آرڈیننس جنسی زیادتی کے ملزمان نے کیس جلد نمٹانے کیلئے سپیشل کورٹس بنانے کے حوالے سے جاری کیا گیا ہے۔ اس سے چلیں ایک برائی کا قلع قمع ہونے کی امید تو پیدا ہوئی ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر کیس کا فیصلہ جتنا جلد ممکن ہو سکے ہو جایا کرے۔ کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے اس حوالے سے 12 سو مقدمات ہیں۔ جبکہ احتساب عدالتوں کی تعداد اب صرف 25 ہے۔ اب بتدریج 120 ہوئی جائے گی۔ احتساب عدالتیں 30 دن میں مقدمات نمٹانے کی پابند ہیں مگر کئی مقدمات برسوں بلکہ دہائیوں بعد بھی منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکے۔ اس کو عدالتوں کی کمی اور نیب میں ماہرین کا فقدان بھی بتایا جاتا ہے۔ 120 عدالتیں بن جائیں گی تو روزانہ کی بنیاد پر ہر مقدمے کی سماعت اور دئیے گئے وقت کے دوران فیصلے ہو سکیں گے۔ جو لوگ نیب کی زد میں آئے اور بے قصور ہیں ان کی بریت یقینی ہے جبکہ جرائم پیشہ لوگ چلا رہے ہیں بلبلا رہے ہیں۔ وہ سرے سے نیب کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور ان جیسوں کو اپنے اعمال دیکھ کر ’’کُھڑک ‘‘ گئی ہے۔ وہ بھی ان کے سُر میں سُر ملا کر نیب کے خاتمے کیلئے زور لگا رہے ہیں۔ نیب میں سقم ہیں تو وہ ضرور دور کئے جانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے لوپ ہول بھی بند کرنے کی ضرورت ہے جو جرائم پیشہ ذہنیت اپنے بچائو کے لیے استعمال کر کے بچ نکلتی ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں ریپ کے مجرم کو سزا کے حوالے دیا جانے والا آپشن ختم کر دیا گیا ہے جس میں پہلے کہا گیا تھا کہ مجرم عمر قید یا نامرد ہونے میں سے ایک کا انتخاب کر سکتا ہے۔ موت کے قیدی سے اس سے آخری خواہش پوچھی جاتی ہے۔ زیادتی کے مجرم کو یا کسی بھی مجرم سے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ اسے کون سی سزا منظور ہے۔ یہ تو قانون کے ساتھ مذاق تھا جس کا حکومت کو جلد ادراک ہو گیا۔ زیادتی کے مجرم کے لئے عمر قید یا اسے نامرد بنانا کم سزا ہے۔ اگر اس قبیح فعل میں کمی مقصود ہے تو مجرم کی سزا موت سے کم نہیں ہونی چاہئے اور زیادہ عبرت ایسے لوگوں کو سرے عام سزائوں سے ہی ہو گی۔اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے تو ضرور کر لینی چاہئے۔مجھے یاد آیا جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک مشہور واقعہ رونما ہوا جسے دنیا آج بھی پپو قتل کیس کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پپو وہ معصوم بچہ تھا جسے چند درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے چوتھے روزبچوں کا اغوا اور جنسی تشدد دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوا کرتا تھا۔ مگر شہری علاقے میں پپو کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خصوصی عدالت نے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنائی اور ضیا الحق نے انکی سرعام پھانسی کا حکم دیا۔ چنانچہ کیمپ جیل لاہور کے اندر ان تینوں کو انتہائی اونچی کرین کے ساتھ تقریباً دو لاکھ افراد کے سامنے لٹکا دیا گیا۔ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تقریباً 300روز تک اس نوعیت کا واقعہ رپورٹ نہیںہوا اور اس قسم کے واقعات میں کمی آگئی۔بعض لوگوں بالخصوص موم بتی مافیا نام نہاد ہیومن رائٹس کے علمبرداروں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا۔ لوگوں کو اس واقعے سے عبرت دلانے کیلئے یہ اچھا قدم تھا کیونکہ معصوم بچے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے مجرموں کو سب کے سامنے کیفرکردار تک پہنچانے پر کسی صاحب اولاد کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی میں زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا کی قرارداد منظور ہو چکی ہے۔فاضل پارلیمنٹیرین اُس کا احترام کرتے ہوئے اُسے قانون کے قالب میں ڈھالیں۔