ایک پاگل کالا باغ میں ہر وقت ادھر ادھر پھرتا رہتاتھا نواب امیرمحمد خان صاحب کی گاڑی کو دیکھ کر آگے آجاتا اور باتیں کرنے لگتا ۔ ایک دن گاڑی کے قریب آیا تو نواب صاحب نے پوچھا کیسی گزر رہی ہے ؟ کہنے لگا آپ اور میں برابر کی جائیداد کے مالک ہیں نواب صاحب نے کہا وہ کیسے ؟ کہنے لگا مرنے کے بعد جتنی زمین آپ کے پاس ہوگی اتنی ہی میرے پاس ہوگی ۔ یہ کہہ کر وہ چل دیا اور نواب صاحب سوچتے رہ گئے ۔ خداداد اسلامی مملکت پاکستان میں مختلف ادوار میں رہبری کا دعویٰ کر کے بہت سے چہرے نمودار ہوئے کچھ واپس چلے گئے کچھ پاکستان پر اپنے اہل و عیال کا قبضہ کروانے کی جدوجہد میں دیوانوں کی طرح مشغول ہیں۔ گویا یہ ان کا ترکہ ہے جو ہر صورت وہ اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کے سپرد کرنے کے درپے ہیں ۔
مجھے بحیثیت سیاسی کارکن ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ غریبوں کے حقوق کیلئے لڑنے والے لڑتے لڑتے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی صف میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ قوم کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ بلکہ قوم کے سمجھنے سے پہلے یہ بات راجہ ظفر الحق ، احسن اقبال ، سعد رفیق ،اقبال ظفر جھگڑا، قمرزمان کائرہ اور اعتزاز احسن جیسے دوسرے سینئر لوگوں کو سمجھنی چاہیے جو سیاسی نابالغ بچوں کے پیچھے باادب کھڑے ہوتے ہیں۔
میں نے بھی بحیثیت سیاسی کارکن شاید خوشامد کی انتہاکی بالآخر شرم آنے لگی اور یہ سوچ لیا کہ :اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا…؎
ننگے بھوکے بیچاورں سے کیا لینا
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا
اب قوم کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ "ووٹ کو عزت دو"کا نعرہ لگانے والے پہلے خود اپنی جماعتوں میں سینئر ز کو عزت دیکر جمہوری روایات کی پاسداری کیوں نہیں کرتے ۔ کیا ان کی جماعتوں میں انکے ہونہار جھوٹے سچے بچوں کے علاوہ کوئی اس قابل نہیں ہے جو ان کی جماعتوں کو چلانے کی اہلیت پر پورا اترتا ہو؟ انکے پاس بہت سے قابل لوگ موجود ہیں کچھ نثار علی خان جیسے لوگ اپنی عزت بچانے کیلئے گھر بیٹھے ہیں۔
مشرف دور میں نوازشریف کے ساتھ قید کاٹنے والے غوث علی شاہ صاحب بھی ممنون حسین کو ایوان ِ صدرمیں دیکھ کر آج تک انصاف نہ ملنے کا شکوہ بھی نہیں کر سکتے بلکہ سر انجام خان صاحب جیسے لوگ ان تمام حالات سے بیزار اپنی زندگی کے آخری ایام اپنی ہستی میں گُم ہو کر منوں مٹی کے نیچے چلے گئے اور شاید بہت سے سینئرز صرف اس لیے ساتھ کھڑے ہیں کہ عمر کے آخری حصے میں داغِ بے وفائی نہیں لگوانا چاہتے حالانکہ وہ بے وفائوں سے وفا کر رہے ہیں ۔
میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ اچھے لوگوں کو جماعتوں کے اندر ہونا چاہیے ۔ مگر شرط یہ ہے کہ لیڈروں سے زیادہ پاکستان کی محبت سر چڑھ کر بول رہی ہو ۔ پاکستانی قوم کو ایسے لوگوں پر ضرور نظر رکھنی چاہیے جو صبح وشام TVچینلز پر بیٹھ کر بے شرمی کی حد تک لیڈرانِ کرام کی کرپشن ، بد عنوانی، غیر آئینی ، غیر قانونی معاملات کو Defendکرتے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے لیڈر پاکستان کی دولت لوٹ کر سرے محل اور ایون فیلڈ میں خوار ہوتے ہیں ۔ انکے بچے باہر ، کاروبار باہر، دولت باہر، گھر بار باہر بس حکمرانی ہم پر ہے۔ اور ان کے سیکنڈ لائن کے لیڈرز پر راحت اندوری کی بات صادق آتی ہے کہ :
جھوٹوں نے جھوٹوں کو کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پر یہ لکھا ہوا ہے سچ بولو
میں پاکستان کے غیرت مند نوجوانوں کو بہت باادب کہنا چاہتا ہوں جو سردی کے یخ بستہ موسم میں ان کیلئے اکٹھے ہوئے تھے "اپنا جہاں پیدا کرو" ۔ انھیں صرف اپنے بچے عزیز ہیں آپ نے دیکھا نہیں ان کے اپنے بھائی بیٹے سب باہر تھے اور آپ سے جھوٹا رشتہ جوڑ کر پاکستان کو مینارِ پاکستان پر چڑھ کر گالیاں دیتے رہے تھے ۔ پاکستان کے اداروں کی بربادی کی عالمی کافرانہ نظام کی خواہش آپکا سہارا لے کر یہ پوری کر رہے ہیں ۔
میرے پیارے دوستو!
طوفانوں سے آنکھ ملائو سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کر دریا پار کرو
یہ نام نہاد لیڈر اقتدار کی پے در پے خواہش میں پاگل ہو چکے ہیںاور ہر صورت پاکستان پر قبضہ کر نا چاہتے ہیں چاہے انھیں پاکستان کے اداروں کو کمزور کر کے پاکستان کے دشمنوں کے کندھوں کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ میری نظر میں پاکستان کی بربادی کی ذمہ داری اپنی ذات کیلئے پاکستان کو قرضے کی دلدل میں دھکیلنے والی اسی لیڈر شپ پر آتی ہے ۔ پاکستانی قوم اور خاص طور پر ان کی جماعتوں میں بیٹھے محبِ وطن لوگ جب تک ان جماعتوں سے اپنا حق نہیں مانگیں گے یہ لوٹ مار اسی طرح ہوتی رہے گی۔
میرے خیال میں اب سیاسی جماعتوں میں شامل اچھے لوگوں کو اچھا رول ادا کرنا پڑیگا اور نثار علی خان صاحب جیسے لوگوں کو فرنٹ فٹ پر آنا ہوگااگر ایسا نہ کیا تو بقولِ افلاطون: "سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہوگا کہ تم سے کم تر لوگ اٹھ کر تم پر راج کرنے لگیں گے "
پاکستان کو اس سازشوں کے دور میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے قوم کو آج پاکستان کے دشمنوں اور محافظانِِ وطن کو برا بھلا کہنے والوں سے سوال کرنا پڑیگا۔ ہمارا ازلی دشمن ہندوستان ہم پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے اور بیرونی آقائوں کی آشیرباد سے یہ پاکستان کے اداروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔
پاکستان اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ آج جو پاکستان میں افراتفری پھیلا رہے ہیں وہ پاکستان کے دوست نہیں ہیں ۔
جب پاکستان کو تمہاری ضرورت پڑی ہے تم دشمنوں کے ساتھ مل گئے ہو تمھیں یہ کہنا بھی فضول ہے کہ خدا سے ڈرواگر تم خدا سے ڈرتے تو خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کبھی نہ کرتے۔میں دکھی دل کے ساتھ بس یہی کہنا چاہتا ہوں :
ایک چنگاری نظرآئی تھی بستی میں اُسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
٭…٭…٭