اگر قائداعظم زندہ رہتے تو پاکستان متحد رہتا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب شیخ مجیب الرحمان رہا ہوکر آئے اور ملک غلام جیلانی کے ہاں ٹھہرے تو میں ان سے ملا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب الیکشن ہونے والے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں آپ کی اکثریت ہے اور عوامی لیگ کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ آپ براہ کرام آئیں اور وزیراعظم بنیں۔ شیخ مجیب الرحمان نے مجھے کہا کہ مجید بھائی! آپ یقین کریں کہ یہ جرنیل مجھے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم دس سال ایوب خان کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ہم آپ کی بھرپور حمایت کریں گے۔ شیخ مجیب الرحمان نے کہا کہ مجھے مغربی پاکستان سے صرف ایک امید وار حامد سرفراز ملا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ حکومت بنائیں تو سب آپ کے ساتھ ہونگے لیکن شیخ مجیب الرحمان نے میری بات نہ مانی وہ گویا یہاں سے جانے سے پہلے بنگلہ دیش بنانے پر تیار تھے۔ بھٹو بھی اس کام میں اتنے ہی ملوث ہیں جتنے کہ یحییٰ خان جو کہ نور جہاں کے گانے سن سن کے مدہوش ہوچکے تھے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو جاری کیا جائے اور ان تینوں ذمے داروںکے خلاف مقدمے چلائے جائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بنگالیوں کو ان کے حقوق دے کر مشرقی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا۔ بنگالیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جرنیل شاہی ہے اس لیے یہاں ہماری حکومت کا آنا مشکل ہے۔ جس قسم کی جمہوریت بنگالی چاہتے تھے ہم ایسی جمہوریت نہیں دے سکتے تھے۔ جمہوریت کو آمریت کا تڑکا لگا رہتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ چین نے 500پاکستانی طالب علموں کو وظائف دینے کا اعلان کیا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ہزار بنگالیوں کو وظائف دینے کا اعلان کریں۔ اللہ کرے کسی دن بیگم خالدہ ضیاء دوبارہ برسر اقتدار آجائے تو ہم ایک بار پھر قریب آسکتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی حامی ہیں۔ پاکستان میں بھٹو کے داماد کی حکومت ہے جنہیں ان باتوں کا کوئی ادراک نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں کہیں کہ ایک ملک نہ سہی ہم ایک کنفیڈریشن بنالیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش آزاد ہے اور وہ بھارت کے اثر میں نہیں آیا۔ ہمیں بنگلہ دیش کو فوجی امداد دینی چاہیے۔ ہمارے مابین تجارت اور وفود کے باہمی تبادلے ہونے چاہیے۔ بنگلہ دیش میں لاکھوں پاکستانی ناگفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ میں نے ان کے کیمپوں کا معائنہ کیا ہے۔ ان کے لیے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں شہید نے میاں چنوں میں ایک ہزار کوارٹر بنوائے تھے لیکن وفاقی حکومت نے محصورین کو وطن واپس لانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کہ ایک صوبائی وزیراعلیٰ یہ کام نہیں کرسکتا۔اُنہوں نے کہا کہ ان محصورین کی پاکستان میں لاکر بسایا جائے۔
مجید نظامی اس بات کا برملا اعتراف کرتے تھے کہ ہم نے بنگالیوں کو ان کا جائز حق دیا ہوتا تو یہ سانحہ کبھی رونما نہیں ہونا تھا۔ 15دسمبر 2007ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں منعقدہ نشست میں اپنے خطاب میں مجید نظامی نے کہا ہمیں موجودہ پاکستان کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اس سے کوئی اور بنگلہ دیش جنم نہ لے۔ میرا مشرقی پاکستان میں کافی آنا جانا تھا کیونکہ میں صحافیوں کی پیشہ وارانہ تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای ہیں‘ میں بہت سرگرم تھا۔ وہاں کے ایڈیٹر حضرات سے میرے ذاتی تعلقات تھے۔ اُنہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ مانق میاں ’’اتفاق‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ظہور بھائی ’’سن باد‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ’’آبزرور‘‘ کے ایڈیٹر بہت شریف آدمی تھے تو ان سب ایڈیٹرز سے جب میری نجی طور پر بات چیت ہوتی تھی یا جب وہ لاہور آتے تھے تو میں اُنہیں مال روڈ یا گورنمنٹ کالج دیکھانے لے جاتا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں اُن سے ازراہ مذاق پوچھا کرتا تھا۔ کہ کیا یہ پٹ سن سے بنا ہے تو وہ ہنس کر کہتے تھے کہ ہاں یہ پٹ سن سے بنا ہے۔ اُن کا یہ خیال تھا کہ مغربی پاکستان میں جو کچھ بھی ہے یہ اُن کے پٹ سن سے بنا ہوا ہے لیکن المیہ یہ ہوا کہ 1947ء میں پاکستان بنتا ہے اور 1958ء میں جنرل ایوب خان ملک پر قابض ہوجاتے ہیں۔ بنگالی کہتے تھے کہ مجید بھائی! ہمارا تو صرف ایک جنرل تھا (خواجہ شہاب الدین کا بیٹا فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز ہوا تھا) اُس کے بعد ہم کوئی جنرل پیدا نہیں کرسکے تو اگر یہاں جرنیلوں کی حکومت رہنی ہے تو ہماری باری پھر کبھی نہیں آئے گی۔ آپ کہتے تو ہیں کہ ہم اکٹھے ہیں اور واقعی ہمیں اکٹھے رہنا چاہیے لیکن اگر فوج کے ذریعے ہی حکومت رہنی ہے‘ ایک جرنیلی سڑک ہی رہنی ہے تو آپ خودہی بتائے کہ ہم کب تک پاکستان کے ساتھ رہیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں لاہور کے شاہ عالمی کے علاقے میں مسلمانوں نے ایک متنازعے جگہ پر ایک مسجد رات بھر میں بنا لی تھی اور اُس کے حوالے سے ایک شعر ابھی تک سب کو یاد ہے ؎
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اُنہوں نے کہا اگرچہ ہم نے شب بھر میں مسجد تو بنا دی مگر ہم نمازی نہ بن سکے ۔ اسی طرح ہم نے پاکستان تو بنا دیااور اللہ تعالیٰ قائداعظم کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے لیکن ہم پاکستانی نہ بن سکے۔ (ختم شد)