اپوزیشن تحریک کادوسرا مرحلہ بھی ناکام ہوگا: عمران

 اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع  نگار خصوصی)  باخبر ذرائع سے معلوم  ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سیاسی کمیٹی اور ترجمانوں کو قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں اپوزیشن کی مجوزہ ترامیم عوام کے سامنے لانے کی ہدایت کردی۔ اور  کہا ہے  کہ ہمارا بیانیہ واضح ہونا چاہیے کہ  اپوزیشن  نیب قانون  میں ترامیم کے ذریعے  این آر او  مانگ رہی ہے۔ اپوزیشن کی تحریک کا پہلا مرحلہ  ناکام ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ بھی ناکام ہو جائے گا۔ پی ڈی ایم کا احتجاج صرف این آر او کے  حصول کے لئے  ہے۔ اپوزیشن نے 34 نکات لکھ کر ہم سے این آر او مانگا ہے۔ ان نکات سے عوام کو آگاہ  کیا جائے۔ انہوں نے یہ بات حکومتی ترجمانوں اور سیاسی کمیٹی کے ارکان کے مشترکہ اجلاس  سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو پیر کو ان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے  کے حوالے سے پاکستان کا واضح مؤقف ہے۔ اجلاس  میں بعض  شرکاء نے رائے دی کہ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کو بے نقاب  کرنا آپ سب کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے  ماضی کی حکومتوں  میں اثاثے بنائے ہیں۔ اب  انہیں نیب کے سامنے سرنڈر کرنا ہوگا۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو  پرو ایکٹو کردار ادا کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاد کررہے ہیں۔ مافیا ہمارے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ اس کے پراپیگنڈے کو زائل کرنے  کے لئے حکمت عملی  بنائی جائے۔  وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سینٹ کے شفاف انتخابات پر اپوزیشن کا دوہرا معیار سامنے آیا۔ ہم شفاف الیکشن کرانا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن  نہیں چاہتی۔ اجلاس  میں وزیر اعظم  کے  مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے اپوزیشن کی نیب قانون میں تجاویز پر بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کرپشن پر نااہلی کی سزا ختم ہو۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کی نیب قانون میں  مجوزہ ترامیم  کو  این آر او قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کہتی ہے ایک ارب روپے کی کرپشن پر نیب کارروائی نہ کرے اور کرپشن پر نااہلی کی سزا ختم ہو۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں سینٹ انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم کو وزرا کی کارکردگی پر بھی بریفنگ دی گئی۔ عمران خان نے وزرا کو کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ کام پر توجہ رکھی جائے۔ عوام کو حد درجہ ریلیف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور حکومتی ترجمانوں کو ہدایت کی کہ  وہ اپنے اہداف  پر توجہ مرکوز رکھیں اور اپوزیشن  کو عوام کے سامنے  بے نقاب  کرنا میری ٹیم کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے اجلاس میں معاون خصوصی برائے پٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کی تعریف کردی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مناظرے میں شاہد خاقان عباسی  پر  حاوی ہونے پر ندیم بابر کو شاباش دی۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی ارکان نے گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق اظہار خیال کی کوشش تو وزیراعظم نے تمام ارکان کو  خاموش کرا دیا اور کہا یہ سیاسی امور پر تبادلہ خیال کی بیٹھک ہے۔ دوسرے کسی موضوع پر بات نہ کی جائے۔ گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کے پروگرام میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کا مناظرہ  ہوا تھا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی‘ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم کی زیرصدارت پارٹی رہنماؤں اور حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا۔ ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ سینٹ انتخابات سے متعلق حکومتی لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پارٹی رہنماؤں اور ترجمانوں کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو این آر او کے پس منظر کا پتہ ہونا چاہئے۔ اپوزیشن والے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے این آر او نہیں مانگا۔ شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن کی ایف اے ٹی ایف بل پر شرائط ذاتی مفاد کیلئے تھیں۔ اپوزیشن کی پہلی ترمیم مان لیتے تو ان کی تمام کرپشن جائز ہو جاتی۔ ایف اے ٹی ایف پر مذاکرات کیلئے کمیٹی کی میں ایف اے ٹی ایف بل پر قائمہ پارلیمانی کمیٹی کا رکن تھا۔ کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی شامل تھی۔ کمیٹی میں ایف اے ٹی ایف بل پر بحث ہوئی تو اپوزیشن نے نیب بل کا پوچھا۔ اپوزیشن کے ساتھ جب میٹنگ شروع ہوئی تو پہلا سوال ہوا کہ احتساب کا بل کہاں ہے۔ اپوزیشن کی تیسری شق مان لیتے تو شہباز شریف‘ زرداری بینی فشری ہو جاتے۔ خواجہ آصف‘ فریال تالپور بھی بینی فشری ہو جاتے۔ اپوزیشن نے نیب قانون کی عملداری 1999ء سے کرنے کا مطالبہ کیا۔ شاہ محمود نے کہا کہ نیب بل پر بعد میں مذاکرات کر لیں گے‘ ان کا جواب تھا نہیں۔ اپوزیشن کی تجاویز ماننے کی صورت میں ان کے 1999 تک بنائے گئے غیرقانونی اثاثے قانونی ہو جاتے۔ ان کی ترمیم تھی کہ ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن پر نیب کارروائی نہیں کرے گا۔ اپوزیشن کے پارلیمانی رہنما نیب بل پر اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ منی لانڈرنگ کی شق کے بارے میں اپوزیشن نے کہا کہ اس کو بطور جرم ہٹا دیا جائے۔ چوتھی ترمیم بے نامی وارثان سے اہلیہ اور بچوں کو باہر نکالنا تھا۔ ان کی ترامیم سے نواز شریف‘ مریم نواز سمیت دیگر کو فائدہ ہوتا۔ آصف زرداری‘ شہباز شریف کو کیسز میں فائدہ ملنا تھا۔ سلمان شہباز اور زرداری کی شوگر ملز کے قرضوں کا معاملہ ختم ہو جاتا۔ اس کا اصل فائدہ چودھری شوگر مل کیسز والوں کو ہوتا۔ ان کی آٹھویں ترمیم تھی کہ نااہلی نہیں ہو گی جب تک سپریم کورٹ کی طرف سے حکم نہ آ جائے۔ مطلب مقدمے کو دس بیس سال چلاتے رہیں۔ جب تک فیصلہ نہ ہو نااہل نہ کیا جائے۔ عدالت سے نااہلی کچھ کیسز میں تاحیات اور کچھ میں 10 سال ہوتی ہے۔ کہا گیا کہ عدالت سے نااہلی کی مدت 5 سال کی جائے۔ ان کی ترمیم تھی کہ نیب 2015ء سے پہلے کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرے گا۔ اس ترمیم سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو این آر او پلس مل جاتا۔ اپوزیشن کو پتہ ہے کہ جب تک وزیراعظم عمران خان ہیں یہ اپنی چوری کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اپوزیشن ریلیاں کرنا چاہتی ہے کرے لیکن عوام کی صحت کا خیال رکھے۔ کرونا بہت بڑھ رہا ہے۔ کرپٹ ٹولہ ذاتی مفادات کیلئے شہر شہر پھرتا ہے۔ اپوزیشن کو نہ قانون کی پرواہ ہے نہ لوگوں کی جان کی۔ یہ بضد ہیں۔ ان کا ہر میلہ فیل ہوا ہے۔ لاڑکانہ میں بھی ان کو ندامت ہو گی۔ غیرجمہوری طریقے سے حکومت کو ہٹانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے عمران خان کیسز میں ریلیف نہیں دے گا۔ کبھی جلسوں کی اور کبھی ریلیوں کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ عدالتوں نے موجودہ حالات میں جلسوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ سیاسی مستقبل بچانے کیلئے اپوزیشن نے عوام کی جانوں کو داؤ پر لگا دیا۔ اپوزیشن کا مقصد اپنی کرپشن چھپانا ہے۔ یہ کرپٹ اور نااہل لوگ ہیں۔ اپوزیشن نے اداروں میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا فضل الرحمن نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں فتویٰ جاری کر دیا کہ وہ صادق اور امین ہیں۔ عدالتیں حق میں فیصلے دیں تو ان کو مانتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو دوسری طرف ان کا بیانیہ غیر جمہوری ہے۔ دو سال تک یہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کو امید تھی کہ این آر او مل جائے گا۔ اپوزیشن والے جمہوری حکومت کو ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان سے سعودی سفیر نواف بن المالکی نے ملاقات کی۔ دوطرفہ تعلقات اور کرونا صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں بلین ٹری ہنی انیشیٹو پروگرام کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ماضی میں جو بھی حکمران آیا اس نے اپنے 5 سال کا ہی سوچا۔ ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلیوں سے نمٹنا ہمارے لئے چیلنج ہے۔ ہم نے انگریزوں کے بنائے جنگلات ختم اور دریا آلودہ کر دیئے۔ سردیوں میں لاہور میں آلودگی خطرے کی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ پورے ملک میں شہروں کا ماسٹر پلان ہی نہیں ہے۔ ہم شہروں کے ماسٹر  پلانز بنا کر زرعی زمین بچانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے چیئرمین لیکسن گروپ آف کمپنیز نے ملاقات کی۔ سرمایہ کاری کیلئے موزوں ماحول اور صنعت کی ترقی پر بات چیت کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان سے چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی نے ملاقات کی۔ شہریار آفریدی نے مسئلہ کشمیر پر بیانیہ مرتب کرنے پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان  سے سپیکر اسد قیصر نے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا ہے کہ پارلیمان نہ صرف قانون سازی بلکہ جمہوریت کے تسلسل کیلئے نہایت اہم اور ملک کا سب سے بڑا آئینی فورم ہے۔ تمام جماعتوں کو پارلیمان کے تقدس اور جمہوری اقدار کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے۔ عوام پارلیمنٹ میں اپنے مسائل کی آواز اٹھانے کیلئے منتخب نمائندوں کی طرف دیکھتی ہے۔ پارلیمنٹ کی اصل طاقت عوام کی خدمت اور آ

ای پیپر دی نیشن