تجزیہ: محمد اکرم چودھری
خیبر پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ملک کے معاشی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں حالات بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے بھی بدتر ہیں۔ خیبر پی کے کے بعد دیگر صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات ہونگے اور پھر قومی انتخابات بھی قریب آتے جا رہے ہیں۔ چودہ دسمبر کو سٹیٹ بنک نے مانیٹری پالیسی کے اعلان کے ابتدا میں اعتراف کیا کہ نومبر 2021میں ملک میں مہنگائی اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے اور نومبر میں ملک میں عمومی مہنگائی بڑھ کر 11.5فیصد (سال بہ سال) ہو گئی جو گذشتہ مالی سال کی اتنی مدت میں 8.3 فیصد تھی۔ سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار کے باوجود حکومت بضد رہی کہ ملک میں مہنگائی خطے کے ممالک کے مقابلے میں کم ہے اسے بھی سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار نے غلط قرار دیا اور بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ڈبل سے بھی زیادہ ہے جس سے حکومت کے دعوے کی نفی ہو گئی ہے کہ پا کستان میں مہنگائی بھارت، بنگلہ دیش اور خطے کے دوسرے ملکوں سے کم ہے۔ سٹیٹ بنک کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ نومبر میں پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح 11.5 فیصد رہی، جو سری لنکا کو نکال کر دوسرے ملکوں کی شرح کے ڈبل سے بھی زیادہ ہے۔ سری لنکا میں نومبر کے دوران مہنگائی کی شرح 9.9 فیصدرہی لیکن اس کے باوجود سری لنکا میں مہنگائی کی شرح پاکستان سے کم ہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نومبر میں بھارت میں مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد اور چین میں 1.5 فیصد رہی، ملائشیا میں 2.9 فیصد، انڈونیشیا میں 1.8 فیصد، تھائی لینڈ میں 2.7 فیصد اور جنوبی کوریا میں 3.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ سٹیٹ بنک نے بنگلہ دیش کی مہنگائی کی شرح نہیں بتائی تاہم بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے مطابق بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح پہلے سے تھوڑی کم ہو کر 5.4 فیصد رہی۔ رواں مالی سال روپے کے لئے بھی اچھا ثابت نہیں ہوا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 26 روپے کی کمی ہوئی جس نے ملک میں مہنگائی بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اب میں پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی جانب آتا ہوں۔ سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے5 ماہ میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ارب 8 کروڑ90 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت میں کرنٹ اکاؤنٹ 1 ارب 87 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سرپلس تھا۔ سٹیٹ بنک کے مطابق اکتوبر 2021 کے مقابلے نومبر 2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید 15 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوگیا اور نومبر 2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید بڑھ کر 1 ارب 91 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرگیا جبکہ اکتوبر 2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1 ارب 76 کروڑ ڈالر تھا۔ درآمدات میں اضافے نے بڑھتی برآمدات اور ترسیلات زر میں بہتری کے فوائد کم کردئیے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں بڑھتی اجناس کی قیمت اور مقامی طلب بڑھنے پر درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے ذمے مجموعی قرضوں کے اعدادوشمار کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے 40 ہزار ارب روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اوسطاً ہر روز 13 ارب 13 کروڑ روپے قرض لیا، 39 ماہ میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں مجموعی طور پر 15 ہزار 589 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سٹیٹ بنک کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضوں کا مجموعی حجم اکتوبر کے اختتام پر 40 ہزار 279 ارب 10 کروڑ روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔ 39 ماہ میں حکومتی قرضوں میں 63 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اور مجموعی قرضوں میں 15 ہزار 589 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ جولائی 2018 کے اختتام پر وفاقی حکومت کے قرضے 24 ہزار 690 ارب روپے تھے۔ وفاقی حکومت نے 39 ماہ کے دوران ملکی ذرائع سے 10 ہزار 7 ارب روپے کے نئے قرضے لیے، جس سے ملکی قرضوں کا حجم 26 ہزار 468 ارب روپے ہو گیا، جبکہ بیرونی قرضے اس دوران 5 ہزار 582 ارب روپے کے اضافے سے 8 ہزار 229 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ تاہم وفاقی حکومت کے بیرونی قرضوں میں آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ اور سٹیٹ بنک کے پاس ڈیپازٹس میں دوست ملکوں سے ادھار لئے ڈالر شامل نہیں۔ ان اعدادوشمار سے صرف ایک چیز سمجھ آتی ہے کی پی ٹی آئی کی حکومت کو فوری طور پر مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے اقدام اٹھانے ہونگے، آئی اپم ایف کے پروگرام سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ حکومت آنے والے دنوں میں منی بجٹ لا رہی ہے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ اس کی بجائے اگر ملک میں ان اثاثوں پر قانون کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے تو منی بجٹ کے مقابلے میں بہتر ہے۔ اب بھی اگر یہ اقدام نہ کئے گئے تو آئندہ قومی انتخابات میں عوام اپنا بھرپور ردعمل دیں گے۔