فر حا ن علی
farhan_ali702@yahoo.com
پا کستان کی کو ششیں رنگ لے آئیں اسلا می ممالک افغانستان میں مالیاتی بحران پر قابو پانے کیلئے امداد مہیا کرنے پر متفق ہو گئے ، اسلا می تعاون تنظیم کے وزرائے خا رجہ کے17ویں غیر معمولی اجلا س کے پا کستان میں انعقاد کیلئے سعودی عر ب نے اہم کردار ادا کیا۔جس پر پا کستان برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے بطور چیئر پرسن او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس برائے افغانستان کی تجویز کو پذیرائی دی اور پاکستان کو میزبانی کا شرف بخشاہے۔او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں پا کستان کی دعوت پر20ممالک کے وزرائے خا رجہ ،10نا ئب وزرائے خا رجہ ، یورپی یونین ممالک سمیت 70 سے زائد عالمی تنظیموں کے 437 وفود نے شر کت کی جبکہ اجلاس میں 30ممالک کے علا وہ طا لبا ن اور ان کے مخالف امر یکہ، جا پا ن ، جر منی اور اٹلی کے نما ئند ے بھی شر یک ہوئے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا 17 واں غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس قومی اسمبلی ہا ل میں کر وانے کیلئے قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں اجازت لی گئی تھی۔ وزرائے خارجہ کو نسل کے غیر معمولی اجلا س کے لئے جڑواں شہروں میں سیکیورٹی کے سخت انتظاما ت کیے گئے تھے تاہم نا خوشگوار واقع کے خد شے کیلئے ریڈ زون کو مکمل سیل کر دیا گیا تھا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کو نسل کے غیر معمولی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجیدسے کیا گیا۔ وزرائے خارجہ کانفرنس کی صدارت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی جبکہ وزیر اعظم عمران خا ن ، سیکر ٹر ی جنر ل اسلا می تعاون تنظیم حسین ابراہیم طحہ اور سعودی عر ب کے وزیر خا رجہ شہزادہ فیصل بن فر حان بن عبد اللہ نے افتتاحی سیشن میںشر کت کی۔ وزرائ خارجہ کے غیرمعمولی اجلاس میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ،وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدی ،وزیرمملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل ،مشیر قومی سلامتی معید یوسف ،سینیٹر اعظم سواتی ودیگر نے بھی شرکت کی۔ اسلا می تنظیم کے وزرائے خا رجہ کا 17واں اجلا س وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ابتدائی کلمات سے شروع ہوا۔اسلا می تنظیم کے وزرائے خا رجہ کا 17واں اجلا س وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خیرمقدمی کلمات میں افغان عوام کی مدد کیلئے مجوزہ چھ نکاتی لائحہ عمل پیش کیا۔ اسلامی تعاون تنظیم اور دوسرے امداد دینے والوں ملکوں کی طرف سے افغان عوام کی مدد کیلئے وعدوں کی پاسداری سمیت فوری اور پائیدار انسانی امداد کیلئے او آئی سی کو متحرک ہونا چاہئے۔ ہمیں افغان نوجوانوں کیلئے تعلیم،صحت، تکنیکی اور فنی مہارتوں جیسے شعبوں میں دوطرفہ یااسلامی تعاون تنظیم کے ذریعے سرمایہ کاری بڑھانے پراتفاق کرنا چاہئے۔ اسلامی تعاون تنظیم، اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین پرمشتمل ایک گروپ قائم کیاجانا چاہئے جو بینک کاری کے نظام اور افغان عوام کیلئے سرمائے کی آسان فراہمی میں سہولت کیلئے طریقہ کار پرغور کرے۔ افغان عوام کیلئے خوراک کا تحفظ بڑھانے پرتوجہ مرکوز کی جانی چاہئے اور خوراک کے تحفظ کیلئے اسلامی تنظیم رہنما کاکردار اداکرے۔ افغانستان میں سیاسی اور معاشرتی اشتراک،خواتین اورلڑکیوں سمیت انسانی حقوق کے احترام اور دہشتگردی سے نمٹنے سے متعلق عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنے میں مدد کیلئے افغان عوام سے رابطہ رکھنا ضروری ہے۔افغانستان میں خطرناک انسانی اور اقتصادی بحران کے خدشے کی نشاندہی، امداد روکنے کے بجائے مشترکہ امدادی ہاتھ آگے بڑھانے کا وقت ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ انسانی امداد کسی شرط کے بغیر فراہم کی جانی چاہئے۔ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے سب سے زیادہ کاوشیں کیں ہیں دنیا کو تمام چیزوں سے بالاتر ہو کرافغان معاملے پر آگے بڑھنا ہوگا مو جو دہ صورتحال میں پاکستان افغانستان کیلئے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔ بھارت سے خوراک اور ادویات افغانستان پہنچانے کیلئے سہولت دی خد شہ ہے کہ افغانستان کا معاشی بحران خطے کو بری طرح متاثر کرے گا، غیرمعمولی اجلاس کیلئے او آئی سی کا پاکستان پر اعتماد خوش آئند ہے۔ 1980 کے بعد او آئی سی کا اجلا س پا کستان میں دوبا رہ ہوا پاکستان نے 40 سال پہلے بھی افغانستان کے معاملے پر اجلاس بلایا تھا افغانستان کی نصف آبادی خوراک کی کمی کاشکارہے جبکہ انہیں ادویات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام افغانستان میں خوراک کے مسئلے کی نشاندہی کر چکاہے،عالمی برادری کیلئے افغانستان کے معاشی حالات توجہ طلب ہیں۔ افغانستان میں تعلیم، صحت اور تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کا گروپ بناکر افغانستان کو جائز بینکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دینی ہو گی۔اجلا س سے خطا ب کر تے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فر حان بن عبد اللہ نے کہا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا ہے افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیںہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں برادر اسلامی ملک کے معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔سعودی وزیر خا رجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبد اللہ نے کہا کہ افغان عوام ہماری مدد کے منتظرہیںاور افغانستان میں مالی بحران مزیدسنگین ہو سکتا ہے،دنیا کوعالمی امن کیلئے افغانستان میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ برادر اسلامی ملک نے مشکل کی اس گھڑی میں افغانستان کیلئے ایک ارب ریال دینے کااعلا ن بھی کیا ہے۔
سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہ نے کہا میر ی قیادت میں اسلا می تعاون تنظیم کا جنر ل سیکر ٹر یٹ گز شتہ کئی سالوں اور مہینوں سے افغانستان میں جا ری سنگین انسانی صورتحال پر انتہائی تشویش کے سا تھ گہر ی نظر رکھے ہو ئے ہے۔ افغانستان میں ہو نے والی حالیہ تبد یلی نے افغان عوام کی تکا لیف اور بنیادی ضرویات کو مز ید پیچیدہ بنا دیا ہے ان تکا لیف کا سب سے زیا دہ سامنا خواتین اور بچوں کوکر نا پڑ رہا ہے۔ اس مو قع پر اسلا می سر براہی اجلا س کے سر براہ کی حیثیت سے سعودی عرب کا تہہ دل سے ممنو ں ہو ں کہ انہو ں نے افغانستان کی انسانی حقوق کی صورتحا ل پر وزرائے خا رجہ کی کو نسل کا غیر معمولی اجلاس بلا نے کا اہم اقدام اٹھا یا ہے۔ اس سلسلے میں اسلا می جمہو ریہ پا کستان کی جا نب سے کا نفر نس کا انعقاد اورفراخدلی سے میزبا نی قبو ل کر نا قابل قدر فیصلہ ہے جس پر حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے۔ او آئی سی کا اہم رکن ہو نے کے ناطے ا فغانستان کو تنظیم کے رکن ممالک کی طر ف سے مکمل حما یت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس وقت افغان عوام کی صحت ، خوراک کے تحفظ اور صفائی جیسے شعبو ں کو وسیع پیما نے پر فوری امداد پہنچاناضروری ہے۔ میں اسلا می تر قیاتی بینک اور اسلا می یکجہتی فنڈکے ذریعے او آئی سی کے تمام رکن ممالک پر زور دیتا ہو ں کہ وہ افغانستان کیلئے امدادی منصوبے کو منظم اور ان پر فوری عملدرآمد کیلئے ضروری وسائل کو بروئے کار لائیں۔میں قوی امید کر تا ہوں کہ او آئی سی کے رکن ممالک ، اقوام متحدہ اور علا قائی شراکت داروں کے علا وہ متعلقہ فر یقین افغانستان میں تبا ہ کن انسانی حقوق کی صورتحا ل کا پائیدار حل نکا لنے کیلئے ہر ممکن اقداما ت کر یں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی 17 ویں غیر معمولی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طا لبا ن کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی افغانستان کی نصف آبا د ی خط غر بت سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی اور اس وقت بھی ملک کے 75 فیصد بجٹ کا انحصار غیرملکی امداد پر ہے۔ کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی مشکلات کا سامنا نہیں رہا ہے جبکہ افغانستان 4 دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار رہا ہے ان حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایاہے ۔ ہم مہاجرین کے ایک اور سیلاب سے نبردازما ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیںجبکہ مہاجرین کا مسئلہ پوری دنیا کا ہے افغانستان کی صورت حال انتہائی سنگین بینکنگ سسٹم جمود کا شکار ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے عوام بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہمیں ہر فورم پر کشمیر اور فلسطین کیلئے آواز اٹھانا ہو گی دنیا نے اقدامات نہ کیے تو افغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا۔
وزیر اعظم عمران خا ن نے امر یکہ کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ امر یکہ کو چا ہیے کہ 4 کروڑ افغان عوام اور طالبان حکومت کو علیحدہ علیحدہ دیکھے امریکا 20 سال تک طالبان کے ساتھ جنگ میں رہا لیکن یہ افغان عوام کا سوال ہے۔وزیر اعظم نے اس بات کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ طالبان کو بھی عالمی برادری سے کیے گئے وعدے بشمول جامع حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔انسانی حقوق کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کی مثال دیتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ ہر معاشرے میں انسانی حقوق کا تناظر مختلف ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ اگر افغانستان میں افراتفری ہوگی تو مہاجرین میں اضافہ ہوگا یہ مہاجرین صرف پاکستان اور ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دیگر ممالک کو بھی ان کا سامنا کرنا ہوگا۔ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے جن میں سے 2 لاکھ افراد اپنے ویزے ختم ہوجانے کے باوجود واپس نہیں گئے ۔ اسلامو فوبیا پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے،جس کے خاتمے کے لیے او آئی سی کو کردار ادا کرناہے ۔ معاشرے میں کچھ عناصر نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں ،جبکہ کوئی بھی مذہب دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔دہشتگردی اور اسلام کو بلا وجہ جوڑا ہے ۔ ہم نے پاکستان میں رحمت للعالمین ؐ اتھارٹی بنائی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اگر نبی کریم ؐکا کوئی خاکہ آئے تو اس کا سوچ سمجھ کر جواب دیا جائے کیونکہ نبی کریم ؐ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش او لونے کانفرنس کے انعقاد پر پاکستان اور سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو اس وقت مشکل حالات سے دوچار ہیں افغانستان کے 23 ملین عوام کو بھوک کا سامنا ہے۔ترک وزیر خارجہ نے افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے پاکستان، او آئی سی اور اسلامی ترقیاتی بینک کی کوششوں اور کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ او آئی سی کو یو این ایچ سی آر اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیئے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں طالبان کے ساتھ بھی مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان، ازبکستان، انڈونیشیا اور دیگر ایشیائی ملکوں کے مثبت کردار کو سراہا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد پاکستان کی ان کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال کی جانب بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کروانا ہے، تاکہ طویل جنگ اور خانہ جنگی سے متاثرہ ملک میں کسی بھی انسانی بحران کو روکا جاسکے۔ او آئی سی وزرائے خا رجہ کے 17غیر معمو لی اجلا س ون پو ائنٹ ایجنڈے پر بلا یا گیا تھا جس کا مقصد دنیا کو افغانستان کی مو جو دہ صورتحا ل اور افغان عوام کی مشکلات سے آگا ہ کر نا تھا عر صہ 40سال کی جنگ و جد ل کے بعد افغانستان میں قیام امن کا موقع میسر آیا ہے افغانستان میں ابھر تے ہوئے انسانی بحران کے لیے فوری اقداما ت نہ کیے گئے تو اس کے اثرات ہمسایہ ممالک ، خطے اور دنیا پرمضر ہو سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسلا می تعاون تنظیم کے وزرائے خا رجہ کے17ویں اجلا س میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر بات نہیں ہوئی ۔یہ کہنا منا سب نہ ہو گا او آئی سی کے وزرائے خا رجہ کے 17ویں غیر معمو لی اجلا س کے عنوان سے واضح ہے کہ اجلا س میں صرف اور صر ف افغانستان کے ابھرتے ہوئے انسانی بحران کا مسئلہ زیر بحث لایا جائے۔ یو این ڈی پی کے مطابق 2022 کے وسط تک 97 فیصد افغان خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محض 5فیصد افغان شہر یوں کو مناسب خوراک میسر ہے۔ افغانستان میں بنکنک سسٹم کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان سے باہر مقیم لوگ چاہتے ہوئے بھی اپنے افغان بھا ئیو ں کی کوئی معاشی مدد کر نے سے قاصر ہیں۔ افغانستان میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران کے پیش نظر اور مز ید افغان مہا جر ین کی پا کستان میں آمد کے وجہ سے پا کستان نے سعودی عرب کے اہم کردار ادا کر نے پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا 17واں غیر معمولی اجلاس بلایا تاکہ افغان مسائل حل کیے جائیں۔ اس سے قبل بھی 2لا کھ افغان مہاجر ین ویزہ کی معیاد ختم ہونے کے باوجود پاکستان میں مو جود ہیں جن کی واپسی کیلئے لا ئحہ عمل بنایا جائے گا۔او آئی سی کے وزراء خارجہ کے غیرمعمولی اجلاس میں افغانستان کیلئے ٹرسٹ فنڈ کا قیام بہت بڑی کامیابی ہے۔ دوسرا سیشن ان کیمر ہ ہوا جس میں ما ضی میں ایک دوسر ے کے دشمن رہنے والے آمنے سامنے بیٹھ گئے۔15 اگست کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ صورتحال مزید خراب ہوئی تو افغانستان میں خانہ جنگی اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ بہت حد تک بڑھ جائے گاکابل ائرپورٹ کے مناظر ساری دنیا نے ملاحظہ کیے ہزاروں لوگ وہاں انخلائ کے منتظر تھے پاکستان نے انخلاء کے عمل میں بھرپور معاونت فراہم کی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اگر افغانستان کی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے مضمرات نہ صرف خطے بلکہ یورپ کیلئے بھی ضرر رساں ہوں گے،افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے پاکستان نے 15 اگست کے بعد افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک سے رابطہ اور مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے افغانستان کے چھ قریبی ہمسایہ ممالک کا فورم تشکیل دیا، اس فورم کا پہلا ورچول اجلاس پاکستان اور دوسرا تہران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں متوقع ہے۔ واضح رہے کہ پا کستان نے ماسکو فارمیٹ میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور ٹرائیکا پلس کے فورم کے ذریعے افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف پیش کیاتھا۔
افغانستان کیلئے ٹرسٹ فنڈ کا قیام بہت بڑی کامیابی ہے، دوسرا سیشن ان کیمر ہ ہوا جس میں ما ضی کے دشمن بھی آمنے سامنے تھے