کھیلوں گا نہ کھیلنے دونگا 


ملکی معیشت کی تباہی، حکومتی امور حسن خوبی انجام نہ دینے کی بنا پر اپنی مقبولیت پر نازاں تحریک انصاف کو حکومت سے نکالا گیا ہوا ہے تو بقول صدر پاکستان عارف علوی عمران خان بیحد رنجیدہ ہیںاس رنجیدگی کے عالم میں اب اپنی سیاست کا محور ”نہ کھیلوں گا ، نہ کھیلنے دونگا“ کو اپنا نصب العین بنالیا ہے اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے انہوںابتدا امریکی سازش ، امپورٹڈ حکومت سے شروع کی ، جس پر ان کی جماعت کے ممبر صدر عارف علوی بھی مطمئن نہیںتھے ، امریکی سازش کا نعرہ دم توڑ گیا تو انہوںنے اسکا رخ پاکستان کے سیکورٹی اداروںکی طرف موڑ دیا ،انکی مرضی تھے کہ وہ آئی ایس آئی کا چیف انکا من پسند بنادیں جو 2018ءسے انکی حکومت کا ساتھ دیتے رہے وہ بھی نہ ہوسکا ، عمران خان پھر اپنی توپوں کا رخ سابق سپہ سا لار کی طرف موڑ دیا اور ہر گلی چوراہے پراپنے ہمیشہ کے نعرے کے کرپٹ مسلط کردئے گئے ان سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا ، اور اسکا الزام انہوں نے سابق سپہ سالار پر لگا دیا ، دوران حکومت وہ ہر موڑ پر نہ صرف وہ بلکہ انکے بے شمار اعلیٰ عہدیدار الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان کو غلط مشوروں سے نواز نے فواد چوہدری اور تحریک انصاف کے سربراہی کے خواب دیکھنے والے شاہ محمود قریشی ہیں۔ بہرحال ہم جمہوریت کا خواب دیکھنے والے اور جمہوریت کا راگ الاپنے والی قوم ہیں، یہ سبق آپس میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے سیاستدان ہی ہمیں دیتے ہیں۔تو جمہوریت میں کہیں ایسا نہیںہوتا کہ اگر ایک دفعہ کسی کے کاندھے پر بیٹھ کر حکومت سنبھا ل ہی لے لی تو وہ تا قیامت ہوگی، گو کہ ہم بے شمار معاملات پر الماری میں رکھی گئی آئین کی کتاب کو کھول کر نہیں دیکھتے نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں مگر جو مفاد میں ہو وہ ضرور پڑھتے ہیں ، نہ صرف سیاست دان بلکہ قانونی ادارے بھی ایسا ہی کچھ کرتے ہیں، نہ کھیلوں گا، نہ کھیلنے دونگا کے شوق میں ملک کو سیاسی دلدل میں ڈال دیا ہے، سیاسی دلد ل میں جانے سے سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے جو پاکستان کے ماضی میں کبھی نہیں رہا ۔ سیاسی عدم استحکام، معیشت کی تباہی کا سبب ہوتی ہے جو آج پاکستان پر مسلط ہے اور اس سے راہ فرار کا کوئی راستہ فی الحال نظر نہیں آرہا ماسوائے مانگے تانگے کی مدد سے ملک کی معیشت کو مصنوی تنفس دیا جارہا ہے اگر تبدیلی کو جمہوری رویہ اپناتے ہوئے قبول کرلیا ہوتا اور دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں کی روایت کیمطابق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بحیثیت اپوزیشن اپنی ذمے داریاں ادا کرنا شروع کردی ہوتیں تو ملک یقینا اس سیاسی بے یقینی اور معاشی افراتفری کا شکار نہ ہوتا جس میں آج مبتلا ہے۔ اگر سیاست دان اس قوم سے اور ملک سے محب وطن ہوںتو پہلے انہیں عوام کی فکر کرنا چاہئے جو ہوشرباءمہنگائی سے تنگ آچکے ہیں، سیاستدان ہیں کہ وہ صرف اور صرف میوزیکل چیئر کھیل رہے ہیںاداروں کو اپنے بیانیوںکا منفی حصہ بناکر اتنی تجربہ کار افواج کو بدنام کیا جا رہا ہے،تحریک انصاف کے دور میں سابق وزیر اعظم کے اپنے طور پر بیانات کہ سول اور افواج ایک صفحے پر ہیں۔ یہ بیان افواج کو سیاست سے نتھی کرنے کا نہیں اور اب یہ کہنا کہ ©©” مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا جو سابق سپہ سالار کہتے تھے وہ ہی میںکرتا تھا ۔ عمران خان نے گزشتہ چند ماہ میں کبھی اسلام آباد آکر اسلام آباد کو بند کرونگا، اس میںچند ماہ نکال دیئے ، اب انہیں کسی نے اسمبلیاں توڑنے کی رائے عطاءکردی ہے، وہ کہتے ہیں مجھے علم تھا کہ میری حکومت کیخلاف سابق سپہ سالار کام کررہے ہیںکہ حکومت ختم ہوجائے تو اگر وہ سیاسی بصیرت کے حامل ہوتے تو اس وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں تھا اسمبلیاں توڑنے کا اب اسمبلیاں توڑنے کے خوامخوہ کے بیانات جبکہ اپنا گھر مضبوط نہیں،بڑے صوبے پنجاب میں پرویز الٰہی نے تو پینڈورا بکس کھول دیا ہے وہ عمران خان کے بیانیہ پر اعلانیہ بول پڑے مگر دو کشتوںکے سوار کی طرح پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک آرہی ہے وہ شائد ہاتھ حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ دوسرے لفظوں میں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے بلائے گئے اجلاس سے پہلے اب پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے کیوںکہ آئین کے مطابق جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو جاتی ہے تو وزیراعلیٰ کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن ختم ہو جاتا ہے۔ادھر چوہدری شجاعت کی بھی عدم اعتماد کے سلسلے میں آ ن بورڈ ہیں اور آصف علی ذرداری نے ڈیرہ وہیں لگا رکھا ہے ۔ عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف پر تنقید اور پرویز الٰہی کے اظہار ناراضگی کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ ’وہ ہمارے پاس بیٹھے رہے اور بعد میں انہوں نے بتایا کہ فون آ گیا تھا۔ دبا¶ آ گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کی سیاست میں کوئی نظریہ نہیں جبکہ بقول انکے عمران خان کا سیاست میں ”نظریہ ہے ، سیاست دان اللہ کا خوف کرلیں، ملک کی تاریخ اگر پڑھ نہیں سکتے تو کسی سے سن لیں کہ اقتدارکی رسی کشی کی بناءپر اپنے ملک کا ایک حصہ کھو چکے ہیں ۔ اس سارے کھیل میں ”تاریخ پہ تاریخ“ دینے والے شیخ رشید جو اداروںکا خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے تھے انہیں شائد شٹ اپ کا میسج مل چکا ہے اسلئے وہ زیادہ نظر نہیں آرہے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...