یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کرائے اور مجموعی طور پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی۔ جمہوری تقاضوں کے مطابق تو یہی ہونا چاہئے تھا کہ اسمیلی کا اجلاس بلاکر وزیراعظم کے انتخاب کے آئینی طریقہ کار پر بروقت عملدرآمد کیا جاتا لیکن یحیٰ خان نے اپنی صدارت برقرار رکھنے کیلئے سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز کیا جس کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیش کے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔ اس وقت میرے قائد ایئر مارشل ( ر)اصغر خان نے بنگلہ دیش میں گولی چلانے سے منع کیا لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ ایئرمارشل (ر) اصغر خان نے پلٹن کے میدان میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا لیکن وہاں اردو میں تقریر کرنے پر احتجاج سامنے آنے کے باوجود انہوں نے اردو میں تقریر کی۔ ڈھاکہ سے کراچی ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس کراچی میں طلب کیا جس میں حکومت وقت سے مطالبہ کیا گیا کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے ورنہ پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں گے لیکن انکی بات پر غور کرنے کے بجائے انہیں بنگالیوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت کے تمام سیاستدان یہ مطالبہ کرتے کہ شیخ مجیب الیکشن جیت گیا ہے لہٰذا اسے اقتدار دیا جائے۔ پاکستان دولخت ہونے میں اس وقت کی تمام سیاسی و ملٹری قیادت مکمل قصور وار تھی جنہوں نے اپنے ذاتی اقتدار کی لالچ میں جمہوری اصولوں کو روندا اور نہتے بنگالی عوام پر لشکر کشی کی۔ حالانکہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے واضح کہا تھا کہ بنگلہ دیش تک ہمارا بحری‘ بری و فضائی رابطہ اتنا مستحکم نہیں کہ ہم اس طرح کے تجربات کرسکیں۔
سقوط ڈھاکہ قیادت کی مکمل ناکامی کا نتیجہ تھا۔ بہتر ہوتا کہ ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھتے اور آئندہ کیلئے دانشمندانہ فیصلے کرتے لیکن ہم نے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے حماقتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز کیا۔سوویت افغان جنگ سے قبل احمد شاہ مسعود سمیت کئی افغان لیڈرز کو پشاور میں دفتر قائم کرکے سرگرمیوں کی اجازت دی گئی جس پر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے احتجاج کیا اور اسے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا لیکن اس بار بھی ان کی بات نہیں سنی گئی اور کچھ عرصہ بعد سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرنے کی تاریخی حماقت کردی۔ سوویت یونین اور امریکہ دنیا میں 2سپر پاورز تھیں لیکن دنیا بھر میں یہ دونوں سپر پاورزاپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے باہم دست و گریباں رہتی تھیں۔ سوویت یونین نے روس پر حملہ کیا تو امریکہ کیلئے سوویت یونین کو ناقابل تلافی نقصان دینے کا موقع ہاتھ آگیا ۔
اس موقع پر امریکہ نواز دانشوروں کی تحریروں نے ملک بھر کے تمام طبقات کے ذہنوں میں یہ نقش کردیا کہ سوویت یونین کا افغانستان میں جاکر تعاقب کرنا ہماری بقاء و سلامتی کیلئے لازم ہے۔ اس وقت ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے برملا کہا کہ جس طرح ایران نے سرحد کے ساتھ ساتھ محدود علاقے میں افغان مہاجرین کیمپ بنائے ہیں اور انہیں اس مخصوص علاقے سے باہر رسائی حاصل نہیں اسی طرح آپ بھی سرحدی مہاجرین کیمپ بناکر افغان مہاجرین کو صرف وہیں تک محدود کریں اور پورا ملک انکے حوالے نہ کیا جائے ۔ اسی طرح افغان جنگ میں سوویت یونین کا تعاقب کرنے کی حماقت نہ کی جائے کیونکہ یہ امریکی مفادات کی جنگ ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو ہمارا ملک آئندہ نصف صدی تک اسلحہ‘ منشیات اور دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہے گا لیکن اس بات پر ان کا مذاق اڑایا گیا اور انہیں روس کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔
امریکہ نے دنیا بھر سے جہادی مسلمانوں کو یہاں جمع کیا اور انہیں اسلحہ‘ تربیت اور بھاری رقوم فراہم کرکے افغانستان میں سوویت یونین سے لڑنے کیلئے بھیجا اور امریکہ انہیں مسلم مجاہدین کہہ کر پکارتا تھا ۔ امریکی جرنیل طورخم بارڈر پر نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے۔ سوویت یونین افغان جنگ میں بھاری معاشی نقصانات کے باعث معاشی زبوں حالی کا شکار ہوا اور 200ایٹم بم ہونے کے باوجود سپر پاور کا اسٹیٹس برقرار نہ رکھ سکا اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اس جنگ کے بعد دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور بن گیا جس نے اپنا مفاد حاصل کرنے کے بعد طوطا چشمی کامظاہرہ کیا اور پہلے تو افغان مجاہدین کو القاعدہ پھر طالبان اور اب دہشت گرد قرار دیا تو دوسری طرف پاکستان کو بھی دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیکر نظریں پھیر لیں اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے مزید نت نئے مطالبات کرنا شروع کردیئے۔
افغان سوویت جنگ کی کئی دہائیوں بعد آج پاکستان معاشی بدحالی‘ دہشت گردی‘ اسلحہ و منشیات کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے تو آج وہ تمام عسکری‘ سیاسی و مذہبی قوتیں یہ بات تسلیم کر رہی ہیں کہ واقعی افغان سوویت جنگ امریکی مفادات کی جنگ تھی جس میں ہم نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے لیکن اب وقت گزر چکا ہے اور ایسا اعتراف کرلینے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ہاں البتہ مزید غلط فیصلوں سے بچنے کیلئے ماضی سے سبق سیکھ لیں لیکن کیا ہماری ملکی قیادت کے رویوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے؟بدقسمتی سے آج بھی ہمارے سیاستدانوں نے سبق نہیں سیکھا بلکہ ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں کہ جن سے ملک ڈیفالٹ کرجائے۔ خدارا، اب مزید غلط فیصلوں‘ رویوں اور طرز عمل سے توبہ کریں اور صرف پاکستان کا سوچیں۔ محض ذاتی اقتدار و سیاست ک کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں سے ملک مزید مشکلات کی دلدل میں دھنستا چلا جائیگا۔ آج ملکی مفاد کو اولین ترجیح رکھ کر دلیرانہ فیصلے کرنے والی قیادت کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔