قصورکا علاقہ ،لاہورکا جنوبی پنجاب

Dec 22, 2022

میں یہ کیا موازنہ کرنے بیٹھ گیا ہوں،جنوبی پنجاب میں ان گنت یونیورسٹیاں ہیں، قصور کے پورے علاقے میں ایک بھی نہیں…جنوبی پنجاب میں دو ائرپورٹ ہیںاور نصف درجن افراد کی ملکیت میں ذاتی جیٹ طیارے ہیں۔جنوبی پنجاب میں متحدہ عرب امارات کے شہزادے ڈیرہ جماتے ہیں ، قصور کے پورے علاقے میں ذاتی ڈیرہ بنانے کیلئے اجازت نامہ کہیں سے ملتا ہی نہیں۔ جنوبی پنجاب کو باقی ملک سے ملانے کیلئے موٹرویز کاجال بچھاہوا ہے، قصور بھر میں لاہور فتوحی والا اور قصور دیپالپور روڈکی ٹوٹی پھوٹی دو سڑکیں ہیں ،جن پر گہرے کھڈے انسانوں اور گاڑیوں کا انجر پنجر ہلا دیتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب میں جاگیردار وں کی تعداد گنی نہیں جاتی، اورقصور کے علاقے میںغریبوں اور کسانوںکی تعداد گنتی سے باہر ہے۔ جنوبی پنجاب اس کے باوجود پسماندہ اور دورافتادہ علاقہ کہلاتا ہے ، اور قصور کا علاقہ صوبائی دارالحکومت لاہور کی جنوبی دہلیز پر بے کسی،بے بسی کی لاوارث تصویر بناہواہے ۔جنوبی پنجاب کو ایک صوبہ بنانے کی تحریک زوروشور پر ہے اور لاہور کی ناک کے نیچے قصور کے کیا دیہاتی ، کیا شہری لوگ تاریک دور میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قصور کے بہادرلوگوں نے اپنی بہادر افواج کا ساتھ دیا،65ء میں کھیم کرن فتح کیا، اور 1971ء میں بھارت کے قلعہ قیصرہند کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ 
جنوبی پنجاب نے پنجابیوں کو بابا فرید دیاتو قصور نے بابا بلھے شاہ اور بابا کمال چشتی اور صوفی ولی محمدؒجیسے بلند پایہ،مجاہد صفت بزرگ۔ قصورکی ملکہ نورجہاں کے ملی نغمے دلوں کو نئی زندگی بخشتے ہیں۔ جوانوں کو جذبوں سے معمور کردیتے ہیں۔ مگر نورجہاں اور بابابلھے شاہ کے اس علاقے کا نوحہ لکھنے بیٹھیں تو سینکڑوں صفحات بھی کم پڑجائیں۔ جنوبی پنجاب میں ٹیکسٹائل اور شوگر ملز ہیں ، قصور شہر کی ایک لیدرانڈسٹری پورے پاکستان کی چمڑہ مصنوعات کی ضروریات پوری کررہی ہے۔ میں نے ان کالموں میں اپنے آبائی گائوں فتوحی والا کے گرلز ہائی سکول کی حالت زار کا رونا رویا، جس پرلاہور کے حاکموں نے کوئی توجہ دینے کی زحمت نہ کی، جبکہ یہی حاکم ِ وقت اپنے آبائی شہرکو کمشنری کا درجہ دینے کیلئے دن رات کوشاں ہیں اور وہاں آئی ٹی اور میڈیکل یونیورسٹیاں کھڑی کی جارہی ہیں، بھلے ،لاہور کے حاکم کو اپنے علاقے کی ضروریات پوری کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ لاہور کے نواحی شہر اور مضافاتی دیہات کی بنیادی شہری ضروریات کو پورا کرے۔ 
علاقے کے تمام اسکول کسمپرسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کہیں بلڈنگ نامکمل ،توکہیںسٹاف پورا دستیاب نہیں۔پورے علاقے میں پینے کا صاف پانی نہیں ۔ میں نے کوشش کرکے سابق گورنر پنجاب خالد مقبول سے لاہور قصوردو رویہ سڑک کا منصوبہ منظور کروایا ، اس منصوبے پر ایک فائیو اسٹارہوٹل کے بڑے ہال میں سہ فریقی معاہدے پر دستخط بھی کئے گئے۔مگر اس معاہدے کو معلوم نہیں،دیمک کیسے چاٹ گئی۔چودھری پرویز الہٰی نے اس سڑک کو اپنی نگرانی میں مکمل کروایا، جنرل پرویز مشرف اس منصوبے کا فیتہ کاٹنے کیلئے قصور پہنچے اور انہوں نے اسے فتوحی والا بارڈرتک توسیع دینے کے منصوبے کی منظوری دی۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کی حکومت کا آخری سال عدلیہ تحریک کے ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور اس طرح یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔
وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے خادم اعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالا تو انہوں نے لاہور قصور روڈ کی فائلوں کو جھاڑپونچھ کر سردخانے سے نکالا اور اس منصوبے کو نئی زیب و زینت سے تعمیر کروا یا۔ قصور سے دیپالپورتک ایک شاہراہ میاں خورشید قصوری کی کوششوں سے بن تو گئی ،لگتا تھا کہ یہ علاقہ بھی جدید دور میں قدم رکھ چکا ہے ، مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان سڑکوںکا کوئی پرسان حال نہ رہا اور یہ سڑکیں جگہ جگہ کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگیں۔ اب خدا خدا کرکے ان دونوں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع ہوا ہی تھا کہ عمران خان نے پرویز الٰہی کو حکومت توڑنے کا حکم دے ڈالا۔ معلوم نہیں اسمبلی ٹوٹنے کے بعد جو نگران حکومت آئے گی ، قصور کے پسماندہ علاقے پر نظر کرم کرسکے گی یا نہیں۔ ویسے قصور کے سرحدی علاقے کے باشندوں سے پورا پورا انتقام لیاگیا اور قصور سہجرہ اور گنڈاسنگھ حسین خان والا سڑکوں کا منصوبہ مئوخر کردیا۔ یہ سڑکیں سرحدی دیہات کو تو آپس میں ملاتی ہیں، لیکن دفاعی نقطہ نظر سے بھی ان کی اہمیت مسلّمہ ہے۔
لیکن یہ سڑکیں اب کسی مہربان حاکم کے انتظار میں ہیں۔ لاہور اور قصور کا درمیانی فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے ، دونوںشہر آپس میںمدغم ہوتے چلے جارہے ہیں، ان دونوں شہروں کے مابین فاصلے کی اس کمی نے قصور کی پسماندگی کی کمی میں کوئی مدد نہیں کی۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے کہ میرے علاقے میں کوئی ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ اخوت کے امجد ثاقب نے نجی شعبے میں یونیورسٹی بنانے کا ایک خواب تو دیکھا ، مگر انہیں یونیورسٹی کا چارٹر دینے میں تاخیر کی جارہی ہے ۔ قصور ،چونیاں،پتوکی کے تین بڑے شہراعلیٰ تعلیم کی سہولتیں دینے سے قاصر ہیں۔ لاہور شہرکے چپے چپے پر سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں جھاڑجھنکار کی طرح اگی ہوئی ہیں۔ لیکن لاہور کا جنوبی پنجاب ہر قسم کی یونیورسٹی سے محروم ہے ۔ لاہور کے کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیدیا گیا ہے ، لیکن معروف کالم نویس ارشاد احمد حقانی ،عبدالقادرقصوری، محمود علی قصوری، خورشید قصوری،علامہ احمد علی قصوری، مولانا جاوید قصوری،احمد رضا قصوری ، سردار آصف احمد علی، ملک رشید احمد خان، نکئی خاندان اور میرے جیسے خاکساروں کے اس علاقے کو اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں سے ایک سازش کے تحت محروم رکھا گیا ہے ، اس سوال کا جواب کون دے گا۔؟
قصور میں بڑی صنعتیں کیوں نہیں لگائی گئیں،یہ سوال بھی جواب طلب ہے۔اللہ بھلا کرے پیکیجز والوں کا ،جو اپنا بوریا بستر اٹھاکر قصور لے گئے اور میرے علاقے کے غریب لوگوں کو اپنے گھر کی دہلیز پر روزگار کے مواقع میسر آئے۔ میں اپنے بزرگ دوست سید مراتب علی شاہ کا بے حد مشکور ہوں ،مگر مجھے حکومت ِ وقت سے پوچھنا ہے کہ کیا قصور کا علاقہ پاکستان کے نقشے میں شامل نہیں …؟
کیا قصور کے لوگوں نے مشرقی پنجاب سے آنیوالے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کی میزبانی نہیں کی، گنڈاسنگھ والا کا مہاجر کیمپ والٹن کیمپ سے دوگنا بڑا تھا، جہاں میرے والد بزرگوار میاں عبدالوہاب مسلم لیگ کے سالار کی حیثیت سے کیمپ انچارج کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ یہاں میں ماسٹر الہٰی بخش کی خدمات کا اعتراف ضرور کروں گا جو گنڈاسنگھ مہاجر کیمپ میں میرے والد بزرگوار کے دست وبازو تھے۔ انہی ماسٹر الہٰی بخش نے گنڈاسنگھ والا میں ایک وسیع قطعہ اراضی ہائی اسکول بنانے کیلئے ہدیہ کیا۔ اس سکول کا افتتاح آئی جی پنجاب قربان علی کے ہاتھوں انجام پایا ۔ اس لئے کہ گنڈاسنگھ والا کے مقامی تھانیدار رحمت الٰہی نے اسکول کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا تھااور وہ آئی جی پنجاب کو لیکر وہاں گئے تھے۔ یہ سکول نہ بنتا تو میں کم از کم لاہور کی شکل دیکھنے سے محروم رہتا ۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس سکول کو ڈگری کالج کا درجہ دے ، کھڈیاں جیسے بڑے قصبے میں ایک ڈگری کالج قائم کیا جائے ، قصورسٹی،چونیاں اورپتوکی میں کم از کم ایک ایک یونیورسٹی تو قائم ہونی چاہئیں۔ 

میں قصور کے کون کونسے مسائل کا ذکر قلم کی نوک پر لائوں، مجھے گمان ہے کہ میری کہیں شنوائی نہیں ہوگی۔
نوٹ: میں نے یہ کالم اس مفروضے پر لکھاہے کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی نہیں توڑیں گے ۔ وہ اپنے منصب پر قائم رہیں گے اور میرے علاقے کے تمام مسائل کا حل نکالیں گے ۔

مزیدخبریں