جمعرات،27  جمادی الاوّل 1444،22 دسمبر2022ء 

شکست کی وجہ فٹنس کا شکار بائولرز کی عدم موجودگی تھی۔ بابر اعظم 
سکندر اعظم کے بعد بابر اعظم ہی دوسری شخصیت ہوں گے جنہیں تقریباً تمام پاکستانی جانتے ہوں گے یا اسکے علاوہ مغل اعظم شہنشاہ اکبر وہی انار کلی والے کو بھی سب جانتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ سکندر اعظم کو دنیا فتح کرنے اور مرنے کے بعد خالی ہاتھ کفن سے باہر رکھنے والی کہانی کی وجہ سے اکثر لوگ جانتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا اسے شاہانہ اعزاز کے ساتھ جلایا گیا تھا۔ رہی بات مغل اعظم جلال الدین اکبر کی تو اسے مغلیہ دور حکومت کی وجہ سے پڑھے لکھے اور فلم مغل اعظم کی وجہ سے باقی لوگ جانتے ہیں۔ اگر انار کلی والا واقعہ نکال دیا جائے  تو عوام الناس کی شہنشاہ اکبر سے دلچسپی ختم ہوو سکتی ہے۔ سو اسے بھی ایک کہانی نے امر کر دیا۔ اب رہے اپنے کرکٹ ٹیم والے بابر اعظم تو انہیں بھی اکثر پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہونے اور کرکٹ کا نمبر ون کھلاڑی ہونے اور کئی ریکارڈ بنانے کی وجہ سے جانتے ہیںہے۔ اب آجکل انکی ٹیم پر زیادہ اچھا وقت نہیں۔ وہ خاص طور پر انگلینڈ کے ہاتھوں پانچ روزہ میچوں کی سیریز میں جس طرح تین کے تین میچ ہماری ٹیم نے پلیٹ میں رکھ کر مہمان ٹیم کو پیش کئے اس بارے میں ہمارے بابر اعظم نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سارا ملبہ زخمی بائولروں پر ڈال دیا کہ انکے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہارے۔ یعنی وہی 
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے 
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے 
باقی جو دو دو رنز بنا کر بڑے بڑے نامور بلے باز واپس پویلین کا رخ کرتے رہے ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اب چونکہ وہ خود بلے باز ہیں شاید اس لیے رعایت کر جائیں۔ ورنہ حقیقت میں ساری ٹیم ذمہ دار ہے اس تاریخی شکست کی۔ کیا بلے باز، کیا بائولر کیا فیلڈنگ کرنے والے۔ تینوں شعبوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ 
٭٭٭٭٭
امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی صدر کیخلاف کانگریس کی مجرمانہ کارروائی کی ہدایت 
واقعی یہ بہت بڑی بات ہے۔ ورنہ کسی امریکی صدر میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ وہ ملکی نظام تہہ و بالا کرنے کی کوشش ہی کرے نا کانگریس کو کوئی شوق ہوتا ہے کہ وہ بلاوجہ کسی صدر یعنی سربراہ حکومت کی ٹانگ کھینچے۔ مگر وہ جو ہمارے ڈونلڈ ٹرمپ تھے ناں امریکہ کے سابق صدر جی ہاں وہی کائو بوائے سٹائل والے۔ انہوں نے البتہ پرانی انگلش (ہالی وڈ) کی چند فلموں میں بھی چھوٹا موٹا رول کیا تھا۔ مگر امریکی سیاست میں حقیقی کائو بوائے بن کر داخل ہوئے اور چھا گئے۔ کیا اپنے کیا پرائے انہوں نے سب کو نشانے پر لیے رکھا۔ کسی کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔ عالمی سطح پر بھی انہوں نے اپنے دوست و حلیف ملکوں تک کو نہ چھوڑا۔ دشمن ممالک کے ساتھ بھی  ان کی چھیڑ خانی جاری رہی۔ ان کے دور حکومت میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو گا جو امریکی دوستی کا دم بھرنے کے باوجود اس سے نالاں نہ ہوا ہو۔ پھر خود امریکی بھی جو ٹرمپ کے حامی تھے۔ وہ بھی سب کائو بوائے بن کر ہر طرف نظر آنے لگے۔ الیکشن میں جب امریکی صدر ٹرمپ کو شکست ہوئی تو ٹرمپ اور انکے حامی آپے سے باہر ہو گئے۔ گلیوں، بازاروں سے ہٹ کر انہوں نے براہ راست کیپٹل ہل پر ہلہ بول دیا۔ وہاں کے حفاظتی عملے کو رگیدتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور عمارت میں خوب توڑ پھوڑ کی۔ اس پر امریکی صدر کے خلاف تشدد پر اکسانے، کیپٹل ہل پر حملہ، انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور سازش کے الزامات کے تحت کانگریس (ایوان نمائندگان) میں کارروائی کی گئی اور اب ان پر ان چاروں الزامات کی منظوری دیدی گئی ہے جسکے بعد دیکھنا ہے کہ انکے حامی ہمارے سیاسی انداز میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی راہ پر چلیں گے یا صبر و تحمل سے جناب ٹرمپ قانون کے آگے سرتسلیم خم کرینگے۔ ورنہ موقع تو اچھا ہے ٹرمپ کے پاس کہ وہ بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح جلسے جلوس نکال کر ایوان نمائندگان اور موجودہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
خیمہ بستی میں قائم عارضی سکول کو نامعلوم افراد نے آگ لگا دی 
چلو جی حساب چکتا کر دیا تعلیم کے دشمنوں نے جو آباد شہروں اور دیہات میں سکول قائم کرنے کے حق میں نہیں۔ انہیں ڈھور ڈنگر باندھنے یا مویشیوں کا چارہ رکھنے کا سٹور بنا دیتے ہیں۔ وہ کسی عارضی خیمہ بستی میں سکول قائم کرنے کی جسارت بھلا کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ یہی کچھ کوٹ ڈیجی صوبہ سندھ میں ہوا جہاں سیلاب سے شدید متاثر علاقے کے لوگوں کے لیے قائم خیمہ بستی میں علم دوستوں کی طرف عارضی سکول بنایا گیا تاکہ اس عرصہ میں جو کئی ماہ تک پھیلا ہوا ہے بچوں کے تعلیم میں ہرج نہ ہو اور وہ قلم اور کتاب سے جڑے رہیں۔ مگر اسے بھی نامعلوم افراد نے جلا دیا۔ یہ نامعلوم کون ہیں۔ یہ خیمہ بستی کے لوگوں کو تو علم ہو گا مگر نام بتا کر اپنا خیمہ کون جلوا ئے۔ یہ کام وہ بزدل لوگ کرتے ہیں جو ڈرتے ہیں کہ اگر علم کی روشنی پھیلی تو ان کی قائم وڈیرہ شاہی دم توڑنے لگے گی۔ اس لیے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرے۔ یہی لوگ معاشرے کا ناسور ہیں جو ملک کو آگے بڑھتا ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ اب سکول جلا کر یا بچوں کی کتابیں اور بستے جلا کر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی کامیابی ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ بے شک بااثر لوگ سکولوں میں گدھے باندھیں یا بھینسیں۔ ریڑھے کھڑا کریں یا کاٹھ کباڑ جمع کریں۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ جہالت کو شکست ہوتی ہے اور اندھیرا چھٹ کر رہتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی ذرا ان تعلیم دشمنوں کی خبر لیں اور سکول جلانے والوں کے خرمن کو بھی شعلوں کی آنچ دیں تاکہ انہیں بھی جلنے کی تکلیف کا اندازہ ہو۔ 
٭٭٭٭٭

عمران خان سے ملتان کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی ملاقات۔ انتقامی کارروائیوں کے خدشات 
لگتا ہے ملتان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ممبران پنجاب و قومی اسمبلی کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسے حقیقت پسندوں کو گستاخ قرار دے کر حد ادب میں رہنے کی بات کی جاتی ہے۔اب ان ارکان اسمبلی کو ڈر ہے کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوتی ہے نگران سیٹ اپ طویل ہوتا ہے تو پھر خطرہ ہے کہ انہیں انتقامی کارروائیوں کی بھٹی میں جھونک دیا جائے گا۔ اب سارے ممبران اسمبلی سونا توہیں نہیں کہ بھٹی میں تپ کر کندن بن کر نکلیں۔ پریشانی اسی بات کی ہے کہ اگر تانبے پر چڑھا سونے کا پانی اتر گیا تو پھر کوئی خود کوسونا کہہ پائے گا۔ مگر اس بات پر انہیں داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے ان کے اعلانیہ سے متضاد رائے دی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے خدشات بھی بجا ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ بھی ذرا سوچ سمجھ کر اپنے ممبران اسمبلی کو امتحان میں ڈالیں کہیں ایسا نہ ہو کوئی پارٹی چیئرمین ان کی بھینٹ چڑھ جائے اور بعد میں افسوس کرنا پڑے کہ کیا ہو گیا۔ اس وقت تحریک انصاف کے زیادہ تر ممبران اسمبلی وہ ہیں جو دوسری جماعتوں سے اڑ کر یہاں اقتدار کی شاخ پر گھونسلا بنائے بیٹھے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کڑے امتحان میں یہ سب نہ سہی چند ایک بھی اگر اڑنچھو ہو گئے تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ اتحادی بھی اس وقت روند مارنے کے درپے ہیں۔ اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہو گا آگے صرف ایک ہی دن بچا ہے۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ’’اسمبلی تحلیل ہونے سے پی ڈی ایم کو ڈرنا چاہیے ہمیں نہیں۔‘‘ اصل بات یہ ہے بعد میں کیا ہو گا۔ اسی کیا ہو گا سے لوگ پریشان ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن