بنوں میں یرغمال بنائے گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بازیاب کرانے کیلئے سکیورٹی فورسز کے اپریشن کے دوران گزشتہ روز 25 دہشت گرد مارے گئے جبکہ یرغمالی اہلکاروں کو رہا کرالیا گیا۔ اس اپریشن کے دوران بھی دو سپاہی شہید اور 15 اہلکار زخمی ہوئے۔ اپریشن میں ہیلی کاپٹر اور پاک فوج کے ایس ایس جی (سپیشل سروس گروپ) کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔
اس اپریشن کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ خواجہ محمد آصف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بتایا کہ 33 دہشت گرد سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے۔ ایک دہشت گرد نے سی ٹی ڈی اہلکار کے سر پر اینٹ مار کر اس سے اسلحہ چھین لیا۔ ایس ایس جی نے 20 دسمبر کی رات بارہ بجے اپریشن شروع کیا جس میں تمام دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ سی ٹی ڈی صوبائی ذمہ داری تھی لیکن کے پی کے حکومت عمران خان کے پاس یرغمال بنی ہوئی ہے‘ حکومت کے فنڈز اور ہیلی کاپٹر عمران خان استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے خیبر پی کے میں پھیلتی دہشت گردی کے حوالے سے استفسار کیا کہ اس صوبے کے حکمران کہاں ہیں؟
گزشتہ روز دہشت گردی کی ایک واردات جنوبی وزیرستان میں بھی ہوئی جہاں دہشت گردوں نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور اس دوران فائرنگ کے تبادلہ میں ایک دہشت گرد مارا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق تھانہ سٹی وانا اور باغیچہ چیک پوسٹ پر پچاس سے زائد دہشت گردوں نے گزشتہ رات حملہ کیا جس میں ایک اہلکار شہید اور 15 زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں تین یرغمالی بھی شامل ہیں۔ اپریشن شروع ہوتے ہی دونوں جانب سے دھماکوں اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور بکتربند گاڑی کے ذریعے کمپائونڈ کی دیوار گرائی گئی۔ متعدد دہشت گردوں نے بم پروف گاڑی کا سہارا لیتے ہوئے پناہ حاصل کی جن کیخلاف کارروائی جاری ہے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق کسی بھی جتھے یا گروہ کو پاکستان کا امن خراب نہیں کرنے دیا جائیگا۔ دہشت گردی کیخلاف حکومت اور افواج پاکستان سنجیدہ ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائیگا۔ ترجمان کے بقول دہشت گردی کی ہر لہر کو کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑنے کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔
اگرچہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں حقائق اور شواہد کے مطابق طالبان کے مختلف گروہ ملوث تھے جبکہ طالبان کے بعض گروپوں کی جانب سے پاکستان کیخلاف نفرت پھیلانے والے اقدامات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ ایک طرف افغان عوام بیرونی امداد بند ہونے اور افغانستان کے بیرونی ممالک موجود بنک اکائونٹس منجمد کئے جانے کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی اقتصادی بدحالی کے نتیجہ میں بھوکے مر رہے تھے اور افغانستان سے نقل مکانی میں مصروف تھے اور دوسری جانب طالبان جتھے پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھتے ہوئے اسکی سلامتی کمزور کرنے سے متعلق بھارت کی سازشوں میں شریکِ عمل تھے اور اسکے ایماء پر دہشت گرد آزادانہ طور پر پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کرنے میں مصروف تھے۔
کابل انتظامیہ کے ایسے مخاصمانہ طرز عمل کے باوجود پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں افغانستان میں امن کی مستقل بحالی کیلئے فکرمند تھیں اور انکے نمائندہ عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کے ساتھ روابط جاری تھے جن میں افغانستان کے منجمد کئے گئے بیرونی اکائونٹس بحال کرنے کی درخواست بھی کی جارہی تھی تاکہ کابل انتظامیہ افغانستان کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے قابل ہو سکے۔ مگر طالبان حکمرانوں اور دوسرے گروپوں کی جانب سے اس کا جواب پاکستان کے اندر سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے دیا جانے لگا چنانچہ دہشت گردوں کیخلاف سکیورٹی فورسز کا اپریشن مزید تیز کرنا پاکستان کی مجبوری بن گیا۔ اس حوالے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بھی ہتھیار ڈالنے اور امن کا راستہ اختیار کرنے کیلئے کہا گیا اور انہیں جنگ بندی کے راستے پر لایا گیا۔ فورسز کے اپریشنز میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں تو اس نے گزشتہ ماہ جنگ بندی ختم کرکے پاکستان کے اندر دوبارہ حملوں کا اعلان کردیا جس کے ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کابل انتظامیہ اور طالبان گروہ پاکستان کی جانب سے قیام امن کی کوششوں کو بھی خاطر میں نہ لائے اور کابل میں پاکستان کے سفارت خانہ کی عمارت پر بھی حملہ کردیا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے تاہم پاکستان کے ناظم الامور معجزانہ طور پر بچ گئے۔ پاکستان نے اس کیخلاف کابل انتظامیہ سے بھی باضابطہ احتجاج کیا اور اقوام متحدہ سے بھی رجوع کیا مگر اسکے چند روز بعد پاکستان کے اندر بھی دہشت گرد حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں بطور خاص پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ذریعے بدامنی پھیلانے کا موقع ملک میں جاری سیاسی بحران کے باعث بھی ملا ہے جبکہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران تو افغانستان سے آنیوالے دہشت گرد خیبر پی کے اور وزیرستان کے مختلف علاقوں میں دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہی افسوسناک مناظر میں ملک کے شہریوں کو بنوں پولیس تھانے پر حملے اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز کے دو درجن کے لگ بھگ اہلکاروں کے یرغمال ہونے کے دلدوز مناظر بھی دیکھنا اور بھگتنا پڑے۔ ایسے واقعات پر دفتر خارجہ پاکستان کے سخت احتجاج اور اقوام متحدہ سے رجوع کرنے پر بالآخر پاک افغان سرحدی فورسز کی قیادتوں کے مابین فلیگ میٹنگ کا اہتمام ممکن ہوا جو پاکستان کے اندر افغان فورسز کی پہلی بمباری کے ساتھ ہی منعقد ہو جانی چاہیے تھی۔
اب بھی دیر آید درست آید کے مصداق پاک افغان متعلقہ فوجی قیادتوں کے مابین ہونیوالی فلیگ میٹنگ کے نتیجہ میں سرحدی فورسز میں کشیدگی کے خاتمہ کی امید بندھی ہے۔ جرگہ کی صورت میں انعقاد پذیر ہونیوالی اس فلیگ میٹنگ میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سول اور ملٹری حکام‘ علماء اور عمائدین نے شرکت کی جبکہ چمن اور سپن بولدک کے ڈپٹی کمشنر بھی میٹنگ میں شریک تھے۔ اس میٹنگ میں سرحدی کشیدگی اور دوسرے مسائل باہمی مشاورت سے حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور خوش آئند صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوئتریس نے بھی طالبان حکومت سے مطالبہ کردیا ہے کہ طالبان افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی سرگرمیاں ترک کر دیں۔ اس کیلئے یواین سیکرٹری جنرل نے عالمی برادری سے بھی کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس لئے جو طالبان اس وقت اپنی انتہاء پسندانہ سوچ اور دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کے باعث اقوام عالم میں تنہاء ہو چکے ہیں ان پر امن کا راستہ اختیار کرنے کیلئے عالمی دبائو بڑھایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ راہ راست پر نہ آئیں۔ اگر افغانستان اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں بدستور جاری رہتی ہیں اور اقوام عالم کی جانب سے طالبان انتہاء پسندوں کی پھیلائی دہشت گردی کے آگے بند نہیں باندھا جاتا تو دہشت گردی کی یہ نئی لہر اس خطہ ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرہ بن جائیگی۔ دہشت گردی پر بہرحال کوئی مفاہمت نہیں ہونی چاہیے۔