وزیراعلیٰ ایوان میں اتحادیوں کا اعتماد کھوچکے

Dec 22, 2022

چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com

قومی افق

پنجاب اسمبلی کی صورتحال نے ملک میں ایک بار پھر سیاسی بحران کھڑا کر دیا ہے ،ایک بار پھر سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے بعد وہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جو وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قسم خان سوری کی رولنگ کے بعد پیدا ہو ئی تھی ،بظاہر معاملہ ایک بار پھر عدالت میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے اور سیاستدانوں کے پیدا کردا بحران کو نمٹانے کے لیے عدالت کو کردار اد اکر نا پڑے گا ،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آج شام 5بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے ،قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی نے منگل کے روز غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کیا تھا ،پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی آج سپیکر قومی اسمبلی کے پاس استعفوں کی تصدیق کے پیش ہو سکتے ہیں،ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہو چکی ہے اگر یہ بحران اسی طرح جاری رہا تو  انتظامی امور میں مزید بگاڑ آئے گا جس کا نقصان لامحالہ ملک اور رعوام کو اٹھا نا پڑے گا،سپیکر قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے وفد نے سینٹر شبلی فراز کی سربراہی میں ملاقات کی تھی اور پی ٹی آی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں پر بات کی جس پر سپیکر نے واضح طور پر کہا تھا وہ اجتماعی استعفی ہر گز قبول نہیں کریں گے تمام ارکان انفرادی طور پرٍ پیش ہو گر اپنے ہاتھ سے لکھے ہو ئے استعفے پیش کریں،،سینیٹر شبلی فرازکا کہنا ہے کہ استعفوں کی منظوری اِن کیمرا ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے لیے جلوس نہیں لائیں گے، حکومت ڈرامہ بازی نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ممبران اسمبلی کہیں بھی نہیں جائیں گے، ہم چاہتے ہیں اِن کیمرا استعفوں کو قبول کیا جائے۔شبلی فراز نے مزید کہا کہ ان کی ہر بات کو ویڈیو پر ریکارڈ کرنا چاہیے، یہ اندر کچھ کہتے ہیں، باہر کچھ اور کہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی ہر کوشش یہی ہوتی ہے کہ الیکشن سے بھاگیں، ملکی سیاست کو اس لیے داو پر لگایاجارہا ہے کہ یہ عوام سے بھاگ رہے ہیں۔مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں  نے بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاری مکمل کر رکھی ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو نے سے بچ جائیں، حکومتی اتحاد بالخصوص مسلم لیگ ن کی قیادت نے کاونٹر سٹریٹیجی مرتب کررکھی ہے اور وہ احتیاط سے ایک ایک کرکے اپنے پتے کھیل رہے ہیں۔
اب پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں کا ''امتحان'' ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں کا میاب ہو پاتی ہیں یا نہیں، 2 روز قبل پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی اور اسپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلی چوہدری پرویز الہی نے ایوان کا اعتماد کھو دیا ہے۔بعد ازاں گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے وزیراعلی پرویز الہی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا، پی ٹی آئی کی طرف سے گورنر پنجاب کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب پر اعتماد کے لیے  ووٹنگ کے حوالے سے مہم جوئی سے باز رہیں،پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے گورنر کی جانب سے وزیراعلی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے پر مہم جوئی سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے اسپیکر نے اپنی رولنگ دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ گورنر کسی مہم جوئی سے باز رہیں اور باقی کام آئین کے مطابق ہوگا، عدم اعتماد ناکام ہوگی، جمعے کو عمل شروع ہوگا اور اگلے ہفتے عمل مکمل ہوجائے گا۔ عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد دونوں اسمبلیاں بیک وقت تحلیل کردی جائیں گی۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبے میں گورنر راج بھی نہیں لگے گا، آئینی طریقہ کار ہوگا، پنجاب میں ایسی کوئی صورت حال نہیں کہ گورنر راج لگے، پرویز الہی وزیراعلی ہیں اور وہ رہیں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پرویز الہی کو 187 ارکان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ق)کے 10 رکان نے چوہدری پرویز الہی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، تحریک انصاف کے 177 ارکان کل پرویز الہی کی وزارت اعلی کی حمایت میں اکٹھے ہوں گے۔فواد چوہدری نے کہا کہ پنجاب میں سیاسی بحران اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نئے انتخابات واحد حل ہیں۔
ادھر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ  نئے وزیر اعلی کا انتخاب ہوگا اور جس امیدوار کے پاس اکثریت ہوگی وہ عہدہ سنبھال لے گا اور اگر کسی امیدوار کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہوئی تو رن آف الیکشن میں ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے والا امیدوار وزیر اعلی بن جائے گا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ وزیر اعلی گورنر کی اپروول کے ساتھ اپنا عہدہ برقرار رکھے گا اور گورنر اس وقت تک اپنا اختیار استعمال نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ ایک اجلاس میں چیف منسٹر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہتے۔رانا ثناللہ کا کہنا تھا کہ پرویزالہی خود کہہ چکے ہیں کہ 99 فیصد ارکان اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں، اس کا مطلب وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس صورت میں گورنر کا فرض تھا کہ وہ گورنر کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہتے، انہوں نے اجلاس طلب کرکے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی اعتماد کا ووٹ نہ لیں تو وہ وزیر اعلی نہیں رہیں گے، گورنر کی مرضی ہے جب بھی اعتماد کے ووٹ لینے کا کہہ دیں، ہمیں معلوم ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں اگر ہیں تو ووٹ آف کانفیڈینس لے لیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس حکومتی اتحاد نے ہدف حاصل کرلیا اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باوجود قانون سازی نہ رک سکی اجلاس میں ایجنڈے کے مطابق کاروائی مکمل ہوئی صدر مملکت کیجانب سے توثیق نہ کئے گئے ایم ٹی آئی اور پی ایم سی بل بھی منظور ہو گئے  ،تاہم مشترکہ اجلاس کے دوران اراکین تعداد کم رہی ،ا ہم قانون سازی کی راہ ہموار کرنے کیلئے بلائے جانیوالے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںحکومتی اتحاد کی جانب صدر مملکت کیجانب سے توثیق نہ کئے جانیوالے بل پاس کروا لئے گئے بالخصوص اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں رائج ایف ایم ٹی آئی اور پاکستان میڈیکل کمیشن(پی ایم سی)کے قانون کے خاتمے کے بل جوکہ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد توثیق کیلئے صدر مملکت کے پاس گئے تھے اور صدر مملکت نے انکی توثیق نہ کی تھی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظو کروا لیا گیا ہے حکومتی اتحاد کیجانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںاراکین کی حاضری بھی کم رہی اور اپوزیشن بھی ایوان میں موجود نہ تھی اسکے باوجود حکومت نے مشترکہ اجلاس کا ہدف حاصل کرلیااور قانون سازی عمل میں آگئی

مزیدخبریں