حکومت پاکستان نے ستمبر میں ایک اصولی فیصلہ کیاکہ ملک میں مقیم تمام ایسے غیرملکی جن کے پاس یہاں رہنے کی قانونی دستاویزات نہیں ہیں انہیں اب یہاں سے اپنے ممالک میں واپس جانا ہوگا۔یہ ایک قانونی اور اصولی فیصلہ تھا اور تمام بین الاقوامی قوانین ہرآزاد ملک کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے بہترین مفاد میں یہ فیصلہ کرے کہ اس نے غیرملکیوں کو اپنے ملک میں رہنے دیناہے یا نہیں، بالخصوص ایسے غیرملکی جن کے پاس وہاں رہنے کے قانونی دستاویزات نہیں ہیں، اس فیصلے کی زد میں ظاہر ہے 90فیصد سے زائد افغانستان کے شہری آئے ہیں جوکہ ایک عرصے سے یہاں غیرقانونی طورپر مقیم ہیں۔ گزشتہ بہت عرصے سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیاجاتا رہاکہ غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کو انکے ملک واپس بھیجاجائے مگرماضی کی حکومتیں مختلف وجوہات کی بناء پر یہ فیصلہ نہیں کرسکیں جن میں سب سے بڑی وجہ سیاسی دبائو ہی رہاہے،70ء کی دہائی کے اواخرمیں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو 30 لاکھ سے زائد افغانی جن میں بھاری اکثریت پشتوبولنے والوںکی تھی مہاجرین بن کر پاکستان آئے اور آج40سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی یہ لوگ پاکستان میں رہ رہے ہیں اور پاکستان نے کبھی بھی انہیں واپس افغانستان بھیجنے کیلئے کوئی سختی نہیں کی۔ باوجود اسکے منفی اثرات ہمارے معاشرے اورمعیشت پر روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ایک خاصی بڑی تعداد ان افغانیوں میں ایسی بھی ہے جو یہاں پر غیرقانونی طور پر مقیم ہیں اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ان میں بہت سے لوگ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مقامی آبادی کیلئے بھی درد سر بن چکے ہیں، دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں میں بھی ان میں سے لوگ ملوث ہیں جبکہ سمگلنگ اورمنشیات جیسے دھندوں کے ذریعے یہ لوگ پاکستان کی معیشت کیلئے بھی ایک درد سر بن چکے ہیں، اس تناظرمیں حکومت کا ایسے تمام افراد کو افغانستان واپس بھیجنا ایک ایسا قدم ہے جس کی ہرسطح پر سراہنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے آج بھی کچھ لوگ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر حکومت کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جوکہ ایک انتہائی نامناسب اورمنفی سوچ کی عکاس ہے، ایسا کرکے یہ لوگ ملک دشمنی کے مترادف کام کررہے ہیں۔
گزشتہ روز سابقہ وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی طرف سے ایک تفصیلی بیان جاری کیاگیاہے جس میں انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو سخت تنقید کانشانہ بنایاہے۔
ایک ایسے وقت میں جب حکومت ان غیرملکیوں کوملک سے نکالنے کیلئے عملی اقدامات کررہی ہے، عمران خان کی جانب سے ایسا بیان انکی منفی سوچ کی عکاسی کرتاہے، اپنی سیاست کو زندہ رکھنے اورمیڈیا میں موجود رہنے کیلئے اس طرح کا بیان دینا یقینی طور پر تشویشناک بات ہے، اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے قائد طالبان کے پرانے مداح رہے ہیں اور تحریک طالبان کیلئے ہمیشہ سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انکے دور حکومت میں کئے گئے چند اقدامات کاخمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، انکے اس بیان کا سب سے مایوس کن اور گمراہ کن پہلویہ ہے کہ انہوںنے غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کو اسلامی ہجرت سے جوڑتے ہوئے اسے اسلامی نہج دینے کی بھی کوشش کی ہے، انکی طرف سے ان افغان پسندوں کی پاکستان میں موجودگی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حکومت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے تشبیہہ دینا انتہائی قابل مذمت اور ان کی مذہبی اور روحانی پستگی کامنہ بولتاثبوت ہے۔ پوری دنیا پاکستان کی افغان مہاجرین کی پچھلے چالیس سال سے بلاامتیاز میزبانی کرنے پر مشکور اورمعترف ہے جس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، پاکستان نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان افغان باشندوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کی اور اپنا بھاری نقصان مول لیتے ہوئے ان کو ہر شعبہ زندگی میں بھرپور حصہ لینے کی اجازت دی جس کا نقصان بہرصورت پاکستان اور سیکورٹی ،معیشت اورمعاشرتی طور پر اٹھانا پڑا۔ سابق وزیراعظم بخوبی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کیسے افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہورہی ہے جس کے ثبوت پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، معروضی اور زمینی حقائق سے بے خبر پی ٹی آئی قائد کو اتنا بھی علم نہیں کہ حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے انخلاء کیلئے کیا ہے جس پر ایک منظم طریقے سے عمل کیاجارہاہے اور واپس جانے والے افراد کو پورے احترام اور تکریم کے ساتھ انکے وطن واپس بھیجاجارہاہے، آرمی چیف نے اس سلسلے میں خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ واپس جانے والے تمام افراد کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھاجائے، سابق وزیر اعظم کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آج بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں جبکہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد ہجرت کرکے نہیں بلکہ چوری چھپے کسی دوسرے ملک یا علاقے میں جاتے ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس کی اجازت نہیں دیتا، سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی قائد نے اب اپنے آپ کو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ تشبیح دینا شروع کردیاہے جوکہ انکی منفی سیاست کامنہ بولتاثبوت ہے، ایسے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں چاہے اس میں ملک اور اداروں کا کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔
اب دنیا میں پاکستان مخالف قوتیں ان کے اس بیان کو بڑھا چڑھاکر پیش کرینگی تاکہ پاکستان کی بدنامی ہو، اسکے ساتھ ساتھ پشتونوں کے اندر بھی پاکستان اور فوج مخالف جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے، لگتا تویہی ہے کہ گزشتہ چندماہ کے تجربات سے سابق وزیراعظم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ آج بھی اپنے اسی بیانیے پر قائم ہیں جس کی بدولت قوم کو 9مئی جیسا دن دیکھنا پڑا، آگے انتخابات آنے والے ہیں جن میں اس طرح کی باتیں سننے کو مل سکتی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی قائد اور انکے چند بچے کھچے حواریوں کو اپنی سیاسی بقاء اب اسی بات میں نظرآتی ہے کہ فوج اور ریاست کے ڈھانچے کو جس حد تک ہوسکے متنازعہ بنایاجائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں مزید بے چینی اور اضطراب پھیلے جس سے ہرکوئی متنازعہ ہو اور الیکشن کومتنازعہ بنایاجاسکے، اس سوچ اور طرز سیاست کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ پاکستان کی سیاست سے متصادم ہے۔
٭…٭…٭