نام بھی منحوس ۔ ذات بھی بد نسل۔ اتنی بڑی گستا خی مگر اس سے بھی بڑی گستاخی کہ 24 گھنٹے چیخنے چلانے والے برقیاتی چینلز پر خبر نظر نہیں آئی وہ میڈیا جو معمولی باتوں کو اچھال اچھال کر بریکنگ نیوز کی صورت میں دن رات ہمارا دماغ شل کر دیتا ہے صد افسوس ایک ملعون ہندو کی ناپاک جسارت پر اِس طرف کوئی پتا بھی نہیں ہلا نہ سیاسی نہ دینی ۔ لمحہ حاضر میں فلسطین اور کشمیر غاصب۔ جابر قوتوں کے بوٹوں تلے دبے پڑے ہیں۔ کون سا ظلم ہے جو دونوں پر نہیں ہوا۔ کوئی ایسا ہتھیار نہیں جو تشدد پرستوں نے استعمال نہیں کیا۔ گرفتاریاں ۔ ہلاکتیں ۔ چھاپے ۔ قتل و غارت میں نہ عمر کو ملحوظ رکھا گیا نہ جنس کی بنا پر نرمی دکھائی گئی۔ ہر دو سرزمین ہائے مظلومین بدترین انسانی تذلیل کے عقوبت خانے بن چکے ہیں۔ دن کی روشنی ۔ رات کا اندھیرا سبھی کچھ برابر ہو چکا ہے۔ نہ گھر بار سلامت ہیں نہ کاروبار نہ تعلیم گاہیں محفوظ رہیں نہ ہسپتال ۔ جنگی قوانین کی پابندی وہ کرتے ہیں جو انسان ہوں یہاں تو چاروں طرف انسانوں کو زندہ کھا جانے والے درندے دندنا رہے ہیں نہ عزت کا پاس نہ دنیا کا خوف ۔ ویسے بھی خوف ان کو ہوتا ہے جو اصل مالک سے ڈرنے والے ہوں ۔ جہاں مالک حقیقی کا ڈر نہیں وہاں کس کا ڈر ہاتھ باندھ سکتا ہے؟ ہماری نظریں اوپر ہیں دیکھیں کب فریادیں باریاب ہوتی ہیں ہاتھ توبہ کی شکل میں جڑے ہوئے ہیں دیکھیں کب شکرانہ کی صورت میں سجدے میں جاتے ہیں ۔ بس مالک رب رحم ۔ فضل عطا فرما دے۔ آسانیاں ۔ عافیت ۔ سلامتی نازل فرما دے ہم پر۔
پچھلے دنوں دنیا بھر میں ’مٹی کا عالمی دن‘ منایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2050ء تک 90فیصد زمین اپنی ذرخیزی کھو سکتی ہے ہر 5سیکنڈ کے بعد فٹ بال گراؤنڈ کے برابر زمین کا کٹاؤ جاری ہے ۔ مٹی کا پتلا مٹی کے خمیر سے سانس کا آغاز کرنے والا اپنے پیدائشی وجود کا سب سے پہلا اور کاری دشمن ثابت ہوا۔ یہ انسان ہی ہے جو حلف شکنی اور فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور کرتا آرہا ہے۔ سوچیے کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ اور دیکھیں اعمال ناموں میں کیا مت مار دینے والے کاموں کی فہرست ہے ساخت اپنے وجود کا سب سے بڑا خود دشمن ۔ اپنے ہم وطنوں کا سب سے بڑا مخبر۔ اپنے بہن بھائیوں کا سب سے زیادہ حاسد جو اپنے والدین کا نا شکرا ہے تو سوچیے وہ اصل معبود اعلیٰ کا شکر گزار کیسے کہلا سکتا ہے ؟ ہے نہ سچ بات ۔ مٹی کا پتلا ۔ اکڑ اتنی۔ صرف ایک نہیں دو۔ دو ایوارڈ یافتہ۔ وہ بھی ایمی اور گریمی ۔غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے وائٹ ہاؤس کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی۔ بات ہے ہالی وڈ کی امریکی اداکارہ سنھیا نکسن کی۔ یہ بھی مٹی کی مورتی ہے بھلے ایمان سے خالی ہے اور ایمان والوں کا حال؟ پاکستان میں 75سال غلط قیادت کو منتخب کیا گیا سربراہ جے یو آئی ف ۔ 100فیصد متفق ۔ استدعا ہے کہ پوری قیادت کے نام ضرور مشتہر کر دیں۔ بلاشبہ عزت اللہ رحمن ۔رحیم۔ کریم کی بے بہا نعمت ۔ عطا ہے عزت اللہ رب العزت دیتا ہے اور رب آسمانوں و زمین ذی شان کی خصوصی نعمتوں کے فیض یافتہ افراد حق جب مخلوق کی تالیف قلب ۔ دکھ کے ازالہ کی تدابیر کرتے ہیں تو انمول شخصیات ۔ ناقابل فروخت روحوں کے قالب میں ڈل جاتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بھلائی ۔ خیر کے خواب بہت سارے دیکھتے ہیں مگر تعبیر کی عملی صورت کسی ایک خوش بخت کے ہاتھوں انجام پاتی ہے۔ پاکستان بھی ایک ایسے ہی خواب کی عملی تعبیر ہے جو علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور قابل صد فخر قائد اعظمؒ کے ہاتھوں سر انجام پایا۔ گو زندگی چند لمحات کا سفر مگر آج لکھتے ہوئے تصور میں (یہ سفر صرف کتابوں میں پڑھا اور فلموں میں دیکھا ہے) ذہن 75برسوں پر محیط یادوں سے سلگ اٹھا ہے۔ لاکھوں انسانوں کی ہجرت ۔ ہزاروں کا قتل عام۔ بے حرمتی‘ سفاکی ۔ بربریت کی نہ بھولنے والی داستانیں۔ کردار مٹی کا حصہ بن گئے اور کہانیاں تاریخ کی صورت میں دل و دماغ پر چلتی رہتی ہیں ۔ ساتھی تمھیں ہم نہیں بھولے، قربانی دینے والوں کی تقاریب کو خوش رنگ پھولوں سے سجا کر تقریب عزت ۔ تقریب یادسے معنون کرنا چاہیے ان کی قربانیاں آج ہماری سلامتی سے پیوستہ ہیں ہم موجود ہیں تو صرف انھی کی وجہ سے ۔
پاکستان پچھلے کچھ ماہ سے پھر سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے ۔ آئے روز کہیں نہ کہیں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ معصوم ۔بے گناہ انسانوں کی جانیں یوں لینا کہاں جائز ہے ؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اول قدم کے طور پر دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دیں جوکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ذمہ دار ریاستی ادارے اس معاملے پر پوری طرح یکسو ہیں ۔ بلاشبہ اس مقصد کے حصول میں قوم بھی اداروں کے ساتھ ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اس مسئلہ پر اکٹھا کرنے کا کام کرے ۔ ایک متفقہ لائحہ عمل ہو نا چاہیے کہ ہر وہ معاملا جو قوم اور ملک کے خلاف ہے ہمارے ریاستی اصولوں سے متصادم ہے ۔ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کا جو مرتکب ہے ا سے کسی صورت چھوڑا نہ جائے ۔ مزید براں اس بات کو بھی ممکن بنایا جائے کہ معیشت کی اصلاح اور بحالی کے لیے جاری مہم کو کبھی بھی موقوف نہیں کیا جائے گا ۔ ہمارا واحد ایجنڈا ون نقطہ ہونا چاہیے ۔کہ پاکستان کی سلامتی سب سے مقدم ہے ۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ ادارے ہیں تو ہم محفوظ ہیں ۔ ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے فضول ۔بے معانی ۔یاوہ کا جو رواج چل پڑا ہے اب اسے ختم کرنے پر پوری توجہ اور صلاحیت لگا دینی چاہیے ۔ کوئی پٹھان ہے یا پنجابی ۔ سردار ہے یا بلوچ سب پاکستانی ہیں ۔ پاکستان کی شناخت سب سے پہلے ۔ صوبائی شناخت بعد میں ۔ عصبیت ۔ تفرقہ بازی ۔ مسلکی جھگڑے۔ سب لوگ اب بس کر دیں ۔ دین اور سیاست کو کاروبار بنانے والے اللہ رحمن کا خوف کھائیں ۔ یہ دنیا عارضی ہے ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ہم مٹی سے بنے ہیں اور مٹی کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اصل چیز ہمارے اعمال ہوں گے ۔ جو ہمارے ساتھ جائیں گے ۔ ہم نے مٹی میں دفن ہو کر مٹی بن جانا ہے ۔ فانی چیز سے محبت کا کیا فائدہ ؟ رہے نام اللہ رحمن کا جو ہمارا مہربان حاکم اعلیٰ ہے ۔