ویلڈن محسن نقوی

 سموگ گزشتہ کئی برس سے ملک کے طول و عرض کو کسی وباء کی طرح گھیرتی اور زچ کرتی چلی آ رہی ہے لیکن اسکے تدارک  یا سد ِ باب کے لیے اس سے پہلے حکومتی سطح پر نہ تو کبھی تشویش نظر آئی تھی اور نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا رہا۔ لے دے کے عوام بیمار پڑتے اور بارش کی دعائیں مانگتے رہتے۔ حتیٰ کہ بارش آتی اور سموگ کے عذاب کو بہا لے جاتی۔ حکومتیں صرف بیان بازی کرتیں اور بتاتیں کہ انڈیا میں گندم کی فصل کی کٹائی کے بعد جلائو جانے والے کھیتوں کی وجہ سے سموگ آتی ہے ۔ دنیا کے ماحولیاتی آلودگی انڈیکس میں لاہور کی پوزیشن کبھی بھی بہتر نہیں رہی  یہ اور بات ہے کہ آج سے پہلے اس سے کبھی کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی اور ماضی گواہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے پہلے آج تک کسی چیف منسٹر کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ حالانکہ ایسی آفات اور وبائوں سے نمٹنا  اور ان سے بچائوکے لیے اقدامات کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ لیکن گزشتہ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا عالم دیکھئیے کہ کوئی باقاعدہ طویل المدتی منصوبہ تو کجا کسی کو کبھی کسی شارٹ ٹرم  منصوبہ بندی کی بھی زحمت اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالانکہ پوری دنیا میں کوئی سالوں سے گلوبل وارمنگ الرٹ چل رہا ہے۔ 
ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ترجیحی بنیادوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ادارے یقیناً ماحولیاتی آلودگی کا شکار ممالک سے رابطے میں بھی رہتے ہیں اور کوئی دفعہ بہتری لانے کے لیے فنذز بھی مہیا کرتے ہیں۔ لیکن ہماری حکومتیں اور حکمران ماشاء اللہ اپنی ترجیحات کے مالک ہیں جو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔  پاکستان میں  پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کسی چیف منسٹر نے سموگ جیسے بھوت اور طاقتور وباء سے ٹکر لی ہو۔ چیف منسٹر محسن نقوی  اسے سمجھنے کے لیے نہ صرف بار بار ماہرین  سے رائے  لیتے رہے بلکہ صوبے کو اس بَلا کے پنجوں سے نجات  دلانے کے طریقوں پر مسلسل غور غوص کیا گیا۔ ٹریفک کے دھویں کو روکنے کے لیے ٹریفک بند کی جاتی رہی۔ گرد و غبار کو روکنے کے لیے چھڑکاؤ کیا جاتا رہا لیکن بات نہیں بنی تو مصنوعی بارش کی تجویز سامنے آئی جس پر اٹھنے والے اخراجات کا مسئلہ آڑے آیا لیکن متحدہ عرب امارات سے تحفتاً ملنے والی اس سہولت سے اخراجات بھی بچا لیے گئے۔
 اگرچہ حکومت مخالفین نے کروڑوں روپے اخراجات آنے کا شور بھی مچایا لیکن چیف منسٹر کی وضاحت کے بعد کہ یہ سب اخراجات متحدہ عرب امارات نے اٹھائے ہیں تو پھر جا کے کہیں زبانیں بند ہوئیں۔ محسن نقوی ذاتی طو پر نئے آئیڈیاز پر غور کرنے اور ان پر عملی اقدامات اٹھانے کی فطری صلاحیت رکھتے ہیں۔ لاہور میں پلاسٹک روڈ بنانے کے بعد پاکستان میں مصنوعی بارش کا کامیاب انیشئیٹو لینے کا کریڈٹ انکے حصے میں آیا ہے اور اب یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ چیف منسٹر نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ صوبے کو اس سالانہ مصیبت سے بچانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن محکمہ ماحولیات کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کیا کیا جائے کہ کرپشن صرف ہمارے ملک کا ہی المیہ نہیں بلکہ پوری دنیا ہی اسکی لپیٹ میں آ چکی ہوئی ہے۔ ہم تو من حیث القوم اس میں گردن گردن لتھڑ چکے ہیں۔ محکمہ ماحولیات پنجاب بھی ایسے ہی محکموں میں سے ایک ہے جس کے افسران کو کرسیوں پر بیٹھ کر تنخواہیں لینے کی عادت پڑ چکی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ لت پڑ چکی ہے۔ پورا بند روڈ چھوٹے چھوٹے بیشمار کارخانوں سے بھرا پڑا ہے جہاں بھٹیوں میں ٹائروں سے لیکر نہ جانے کیا کیا جلایا جاتا ہے۔ یہاں کے کارخانہ دار صوبے کے قوانین کی پابندی کرنے کی بجائے محکمے سے مْک مکا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آلودگی پھیلانے والے کارخانوں کا فوری طور پر علاج کرایا جائے۔ وہ تمام علاقے جہاں سے گرد و غبار اٹھتا ہے وہاں باقاعدگی سے چھڑکاؤ کے علاوہ وہاں کچی مٹی پر اینٹوں اور اینٹوں کی کیری یعنی سرخ اینٹوں کی ریت کا فرش بچھایا جائے ، ہر کچی جگہ پر گھاس اگائی جائے اور شجر کاری کی مہم کو گھر گھر پہنچایا جائے۔ یہ سب کچھ بھی تسلسل سے کیا گیا تو اس کا رزلٹ نکلے گا ورنہ ایڈہاک ازم تو اب ہماری سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔ جیسے ہی ماشاء اللہ سے کوئی نئی حکومت آئی کیا پتہ اسکی ترجیحات کیا ہوں۔ پتہ چلے کہ پی ایچ اے ترکی کو دیدیا گیا ہے ، ایل ڈی اے چائینہ کے حوالے کردیا گیا ہے اور باقی سارا صوبہ کسی پراپرٹی ٹائیکون کے رحم کرم پر ہے۔ لہٰذا کیا ہی اچھا ہو کہ محسن نقوی کو ہی کچھ وقت مزید مل جائے اور ہم انہیں کہیں کہ پورے صوبے  میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جال بچھا دیں۔ بھلے اس کے لیے انہی کاروباریوں ہی کو انویسٹمینٹ کی دعوت دی جائے جنہوں نے اسکے راستے میں رکاوٹ بننا ہے لیکن اگر کرایہ جائز رکھا جائے  تو شہروں پر کاروں اور موٹر سائیکلوں کا لوڈ کم ہو جائیگا۔ 
اگرچہ اورینج لائن ٹرین اور میٹرو بس نے لوگوں کو اچھی سہولت فراہم کی ہے لیکن چند روٹس تک محدود ہونے کی وجہ سے زیادہ تر آبادی اب بھی اس سے محروم ہے۔ ٹریفک کی بھیڑ سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی شاید ہی کہیں اور سے آتی ہو۔ سو طویل المدتی منصوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا شامل کیا جانا ازحد ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن