آج جب کہیں ملک میں گھمبیر سیاسی صورت حال اور انتشار پر بات ہوتو گزشتہ 75برسوں کے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری پاک فوج پر ڈال دی جاتی ہے۔ جس میں موجودہ سیاسی کشیدگی کے حوالے سے 20 سال قبل آئینی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے الگ کی جانے والی جماعت کے وابستگان مزید زور و شور سے پاک فوج کے خلاف 1948ء سے جاری پراپیگنڈے کو اپنی مرضی کا رنگ دیکر ملک میں سلامتی کے اہم ادارے کیخلاف اپنے غم اور غصے کا اظہار کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قائداعظم کی رحلت اور نواب لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاستدانوں کے اپنے علاوہ کسی اور کے حق سیاست کو تسلیم نہ کرنے کے مزاج نے ہی پاک فوج کو سیاست میں مداخلت پر مجبور کیا۔ اس تمہید کا مطلب فوج کی سیاست میں مداخلت کی حمایت نہیں بلکہ اس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ جب تک ملک کے تمام طبقات اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی اصلاح نہیں کرینگے تو ملک میں سیاسی انتشار کا خاتمہ ممکن نہیں۔ حیران کن طور پر پاکستان میں اپنی ہی فوج پر تنقید کو فیشن بنادیا گیا۔ ہمارے ملک میں سیاسی بیانیے تیار کرنے اور اس پر یقین کرنیوالے جب اپریل 1948ء میں پاک فوج کے صوبہ بلوچستان کو پاکستان میں ضم کرنے کے اعلان کے بعدوہاں مسلح بغاوت کرنے والوں کے خلاف آپریشن کا ذکر کرتے ہیں تو ہرگز یہ نہیں بتاتے کہ فوجی آپریشن کا حکم قائداعظم محمدعلی جناح نے دیا تھا۔ صرف اسی لیے کہ قائداعظم کا نام لینے پر پاک فوج کیخلاف تیار کیے جانیوالے بیانیے کی افادیت ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہی دور تھا جب اسی فوجی آپریشن کو بنیاد بناتے ہوئے اس وقت کے قوم پرستوں اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والے دانشوروں نے پنجابی فوج ' پنجابی سیاست دان اور پنجابی بیورو کریسی پر بلوچستان کے وسائل پر قبضے کا بیانیہ بنایا اور پاک فوج کیخلاف منفی پروپگینڈہ کی بنیاد رکھی۔ نہ ہی کوئی اس پر بحث کرتا ہے کہ نواب لیاقت علی خان کے قتل کے بعد چند برسوں میں ہمارے ملک کے یکے بعد دیگرے آٹھ سربراہان کیوں تبدیل ہوئے جس پر بھارت میں جواہر لال نہرو کو پارلیمنٹ میں طنزاً کہنا پڑا کہ ''بھارت میں ہم اتنی جلدی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے پاکستان میں جتنی جلدی حکمران تبدیل کردیے جاتے ہیں‘‘۔
ان تبدیلیوں کی وجہ بھی پاک فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں کا دوسروں کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار پر مبنی مزاج تھا جس میں آج تک رتی بھر تبدیلی نہیں آئی۔ حصول اقتدارکیلئے فوج کو زینہ بنانے کی روش ڈالنے والے بھی ہمارے سیاستدان ہی تھے۔ اقتدار میں ہوں تو ''پاک فوج زندہ باد'' اقتدار نہ رہے تو پاک فوج پر سیاست میں مداخلت نا منظور کے نعرے شروع ہو جاتے ہیں اور تمام تر عوامی مسائل کی جڑ پاک فوج کو قرار دیا جانے لگتا ہے۔الزام لگانے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور دوست ممالک سے قرض یا امداد کے حصول کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو پاک فوج کے سپہ سالار کی مدد کیوں درکار ہوتی ہے؟۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ اقتدار جانے پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ''وہ کون تھا'' جس نے سیاست میں مداخلت کی جبکہ پوچھنا تو یہ بنتا ہے کہ''وہ کون تھا''جس نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی اور وہ کون تھے جن کے پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹوں کی بدولت سابق وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد کامیاب ہوئی۔ یا پھر پوچھنا چاہیے کہ ''وہ کون تھا''جس نے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمہ کے بعد بطور مضبوط اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں ملک و قوم اور خاص کر جمہوری روایات کے مطابق کردار ادا کرنے کی بجائے کرکٹ کے میدان میں استعمال ہونے والے رسک کے پیش نظر پہلے تو قومی اسمبلی توڑنے کی کوشش کی اور اس میں عدالتی مداخلت کے بعد صوبہ پنجاب اور صوبہ کے پی کے میں اپنی جماعت کو حاصل مینڈیٹ کی نفی کرتے ہوئے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا عاجلانہ فیصلہ کیا۔اس طرح نہ صرف صوبوں کے عوام بلکہ اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں سمیت پوری پارٹی کا مستقبل دائو پر لگا دیا۔
اگر اس سے بھی پیچھے جائیں تو پھر سوال بنتا ہے کہ ''وہ کون تھا'' جس نے پنجاب اور کے پی کے میں عوام کے حقیقی مسائل سے نا آشنا، نااہل قسم کے وزیراعلیٰ تعینات کر تے ہوئے دونوں صوبوں میں گور ننس کا ستیا ناس کردیا۔ علیم خان اور جہانگیر ترین کے طیاروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح لائے گئے سیاستدانوں کو اپنے دیرینہ ورکروں پر فوقیت دینا اگر اصول پسندی تھی تو پھر اصولوں اور میرٹ کا ڈنکا بجاتے ہوئے اپنے محسنوں جہانگیر ترین، علیم خان کو بدعنوان ثابت کرنے کیلئے رپورٹس تیار کرانے اور انہیں دیوار سے لگانے والا کون تھا؟"وہ کون تھا''جس نے جنرل باجوہ کو تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند جنرل قراردیا اور بعد میں اس پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگاکر ملک میں ایسے انتشار کی بنیاد رکھی؟ جس کے اثرات ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہے۔ ہمارے ملک میں ناقابل عمل دعوے کرنا اور ان دعوؤں کی بنیاد پر ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا سیاست کہلاتا ہے۔دیگر ممالک میں بھی سیاستدان اس طرح کے غیر ضروری دعوے کرتے ہیں جس پر اقتدار میں آکر عمل کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ان دعوؤں پر عملدارآمد میں ناکامی کاملبہ ملک کے سب سے اہم اور مقتدد سیکورٹی کے اداروں پر ڈالنے کا رواج صرف پاکستان میں ہی ہے۔ بدقسمتی سے اپنی ہی فوج کے خلاف ایسے وقت میں پراپیگنڈہ مزید خطرے کا باعث ہوسکتا ہے جب دہشت گرد انتہائی بے رحمی سے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کو نشانہ بنارہے ہوں۔ ہماری فوج کے افسران ہوں یا جوان۔ وہ شہادتوں سے نہیں ڈرتے نہ ہی اپنی جان کا نذرانہ دیتے ہوئے انکے حوصلے کمزور پڑتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی صورت حال میں جب ایک طرف ہماری فوج ملک دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہواور ملک کے اندر سے ان پر طنز اور طعنہ زنی کے تیر برسائے جا رہے ہوں تو اس سے پہنچنے والے دکھ کا ازالہ ممکن نہیں۔