علامہ محمداقبال کا ایک شعر ہے:
میخانہ ٔ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
ماہرین اقبالیات نے اس شعر کی مختلف توضیحات کی ہیں۔چند روز پہلے میرے بیٹے نے ایک موبائل کا اشتہار میرے سامنے رکھ دیا۔اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تواس نے موبائل کے اس ماڈل میں دی گئی سہولیات کے قصیدے پڑھنے شروع کردیے۔جدید کارپوریٹ کلچر کی بہت بڑی خوبی ہے کہ اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ پہلے صارفین میں اشیا کی اہمیت اور ضرورت پیدا کی جاتی ہے،اس کے بعد پراڈکٹ کو مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے۔نقد نہیں توادھارلیجیے۔اس روزمجھے اقبال کے اس شعر کی سمجھ آئی۔کس طرح عالمی تجارتی کمپنیاں پہلے اشیاکی ضرورت پیدا کرتی ہیں،اس کے بعد انھیں فروخت کے لیے مارکیٹ میں بھیج دیاجاتا ہے۔ان کے پاس ایک ایسا ’روغن عیاری‘ ہے کہ شیونگ بلیڈ سے لے کر موٹرسائیکل تک کے اشتہارات میں عورت کو ( جو ’چراغ ِ خانہ‘تھی اسے ’شمع ِ محفل‘بنا کر) خریداروں کے اعصاب پرسوار کردیاجاتا ہے۔
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دور میں عالمی معاشی ادارے دنیاکے نظام کو اپنی مرضی ومنشا کے مطابق چلانے کی سعی کریں گے۔طاقت کا توازن بگڑجائے تو مختلف قوتیں اسے برابر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔پرانے زمانے میں قوموں کے باہمی مناقشات کے پس منظرمیں کہیں نہ کہیں اقتصادی معاملات بھی موجود ہوتے ہیں۔قدیم بادشاہوں کی ہمسایہ ممالک کی بندرگاہوں، چراگاہوں، مال مویشیوں اور شاہی خزانوں کو دیکھ کر رالیں ٹپکنے لگتی تھیں۔ سو’حیلہ جورا بہانہ بسیار است‘کے قول کے مطابق وہ ان ممالک پر مختلف حیلوں اوربہانوں سے قبضہ کرلیتے تھے۔
موجودہ دور میں ملٹی نیشنل کمپنیاں تیسری دنیاکے وسائل کوہڑپ کرلینے والی ’یاجوج ماجوج‘ہیں۔یہ کمپنیاں اشیائے خورونوش کی فروخت سے لے کر اسلحہ سازی تک کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکا اوراس کے اتحادیوں کے دیگرممالک پر حملے زیادہ تر ریپبلکن پارٹی کے دورحکومت میں ہی کیوں ہوئے؟کہیں اس کی وجہ یہ تونہیں کہ پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کے لیے امدادی رقوم بڑی بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں فراہم کرتی ہیں۔
ہمیں تو لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے تو کیا بہت سی قومی حکومتیں بھی اس کاروباری اشرافیہ کی محتاج ہیں۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اب تو اپنی نجی افواج بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔سرمایہ دار اگر عسکری لحاظ سے بھی طاقت ورہوجائے تواس کے لیے اپنے کاروبار کو پھیلانے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کا دیگر علاقوں (اسپین وغیرہ) میں کاروبارتباہ ہوا تو برصغیراس کی توجہ کامرکز بنا۔اپنی آنکھوں میں مال ودولت کے انبار سمیٹنے کے خواب سجانے والی کمپنی بہادر کہاں جانتی تھی کہ دنیاکی اتنی بڑی سلطنت کے منتشرالخیال حکمران ان کو بادشاہت کا تحفہ پیش کرنے لیے تیاربیٹھے ہیں۔جنیوا کنونشن اور دیگربین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی کے باوجود بڑے طمطراق کے ساتھ پرائیویٹ ملٹری کارپوریشنیں بڑے تواتر کے ساتھ سٹاک مارکیٹوں میں اپنی رجسٹریشن کروارہی ہیں۔
سیاسی معیشت کے ماہرچودھری محمدسلیم کی کتاب ’اکیسویں صدی کا سامراج‘کے مطابق ان نجی عسکری کمپنیوں کے کاروباری حصص بھی مارکیٹ میںبڑی دھوم دھام کے ساتھ فروخت کیے جارہے ہیں۔ انمیں اکیڈمائی (Academi)، آئی سی ٹی ایس انٹرنیشنل (ICTSI)، نارتھے برج سروسز (Northe Bridge Services Group))، ٹرپل کینوپی (Triple Canopy)، پروزیگر (Prosegur)، ایجیز (Aegis)، جی کے سائرا (G K Sierra)، کے بی آر (KBR)، کارپس سکیورٹی (Corps Security)، ڈیفین انٹرنیشنل (D I)، آئی سی ٹی ایسچب فائر اینڈ سکیورٹی (ICT Fire and Security)، اینڈریوز انٹرنیشنل(Andrews International)، ایشیاسیکورٹی ارنیزانٹرنیشنل جیسی متعدد کمپنیاں شامل ہیں۔
ہمارے احباب کو چندسال پہلے لاہور میں بلیک واٹر نامی ایک نجی عسکری کمپنی کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوںدولوگوں کی ہلاکت کا واقعہ یادہوگا جس نے بعدمیں عین اسلامی شرعی اصولوں کی روشنی میں مقتولین کے ورثا کو دیت کی رقم دے کر باعزت رہائی حاصل کی تھی۔گزشتہ چنددہائیوں میں ان پرائیویٹ عسکری کمپنیوں کو مختلف حساس مقامات کی حفاظتی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔اس کا باقاعدہ آغاز امریکا عراق جنگ، افغانستان پرامریکی حملے کے بعد افغان فوج کی تربیت اورتیل کے کنوئوں کی حفاظت وغیرہ کے لیے کیاگیا۔ یہ نجی عسکری کمپنیاں زیادہ تر تیسری دنیاکے ممالک سے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ پرائیویٹ فورسز کو کرائے پر لینے دینے کارواج ان دنوں عام ہے۔ اس کی ابتدا ہمارے مختلف سکولوں ، دکانوں اور گھروں کے باہر حفاظتی امور انجام دینے والے سکیورٹی گارڈز سے ہوتی ہے لیکن اعلیٰ سطح پر دیکھیں تو حیرت کا ایک جھٹکا لگتا ہے۔
مثال کے طور یہ سکیورٹی کمپنیاں جب بڑی سطح پرخدمات انجام دیتی ہیں توبعض اوقات ان کا معاوضہ اربوں ڈالرتک جاپہنچتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ٹاسک انٹرنیشنل (Tast International) برطانیہ کی ایک نجی کمپنی ہے جس کے ذمے بنیادی کام متحدہ عرب امارات کی فورسزکو تربیت دیناہے۔ اسی طرح ڈائن کارپ(Dyn Corp) کے فرائض میں امریکی قبضے کے دنوں میں افغان پولیس اورفورسز کی ٹریننگ تھی۔ان کمپنیوں نے معاوضے کی مد میں اربوں ڈالر کی رقم وصول کی۔یہ کمپنیاں بڑی تیزی کے ساتھ عالمی سطح پراپنی جگہ بنارہی ہیں،وقت گزرنے ے ساتھ ساتھ ان کا عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوتاجارہاہے۔
آنے والے دور میں کہیں ایسا تونہیں کہ یہ ادارے ان روزبروزطاقتور ہوتی چلی جانے والی عسکری کمپنیوں تعاون سے غریب ملکوں کی تقدیروں کے فیصلے کرنے لگیں۔مغربی سرمایہ دارانہ نظام نے بڑی عیاری کے ساتھ دنیاکے زمام اقتدار کواپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔آج نے تقریباً ایک صدی پہلے روس میں معاشی انقلاب آیا، اگر اس انقلاب کی وابستگی مشرق کے نظام فکر سے ہوجاتی توشایدآج دنیاکی تاریخ مختلف ہوتی۔ افسوس کہ روس ایک ایسا ریچھ ثابت ہوا، جس کا سر یورپ اور دھڑ ایشیا کے ساتھ چپکا ہوا تھا، اسی لیے اس نظام کے لیے مات لکھ دی گئی۔ تیسری دنیاکے ممالک کو چین سے امیدیں وابستہ ہیںلیکن جس طرح یہ اژدھا خاموشی کے ساتھ مغربی سرمایہ دارنہ نظام کی طرف راغب ہورہاہے، اس کے لیے بھی خطرات پیداہورہے ہیں۔ اس خطرناک صورتحال میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔ البتہ ایک بیل کی کہانی یاد آرہی ہے جسے کسی نے کہاتھا،’بھیا ! تمھیں چور لے چلے‘۔بیل نے جواب دیا، ’میں نے کھانا توچارا ہی ہے،چور لے جائیں یا سادھ اپنے پاس رکھیں‘۔
٭…٭…٭