جے یو آئی اور ایم کیو ایم کا کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ۔
دونوں پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کمیشن میں الگ الگ درخواست دی گئی تاہم نفسِ مضمون میں کوئی فرق نہیں، تین دن کی توسیع مانگی ہے۔ دونں پارٹیوں کا کم و بیش ایک جتنا حجم ہے تاہم سربراہان کے وزن میں تفاوت ضرور ہے۔ ان پارٹیوں کے دروازے پر ٹکٹ لینے کے امیدواروں کی لائنیں لگی ہیں، دو تین دن تو ان کو گننے میں لگ جائیں گے۔ ایک دو دن کاغذات کی وصولی، دو دن ان کو پڑھنے، ان کا جائزہ لینے فیصلہ کرنے میں لگیں گے۔ فیس کی مد میں اکٹھے ہونے والے پیسے بھی تو گننے ہیں۔ گنتی کے بعد نوٹوں کے اصلی ہونے کا تعین بھی ضروری ہے۔ جعلی نوٹ تو ایسے ایسے ہیں کہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک بھی نہ پہچان سکے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے تو ایسا مطالبہ نہیں کیا۔ ان بڑی پارٹیوں کی امیدیں بھی بڑی ہیں۔ ایک پارٹی نے تو وکیل بھی میدان میں اتار دئیے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے بطور امیدوار، ایک دوسری پارٹی نے بھی وکیل استعمال کئے ہیں، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے نہیں،الیکشن میں غیر معینہ مدت کی توسیع کے لئے۔ اس لیڈر کی بات نہیں کرتے جس نے ہفتہ دس دن تاخیر سے فرق نہ پڑنے کی بات کی ہے۔ اْدھر الیکشن کمشن نے 175 رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اگر ہر پارٹی ہر نشست سے اپنے امیدوار کھڑے کر دے تو الیکشن کمیشن کاغذات کی جانچ پڑتال ایک سال میں بھی مکمل نہیں کر سکتا۔ الیکشن موخر کرانے والے اس نسخے کو آزما کر دیکھیں، کیمیا ثابت نہ ہواتو وہ جو کسی نے کہا تھا میرا نام بدل دینا کی طرزپر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لینا۔
٭٭٭٭٭
کرکٹر شاداب خان پنجاب پولیس کے ڈی ایس پی بن گئے
آل را?نڈر شاداب خان کو برانڈ ایمبسیڈر بنانے کے لئے بلایا گیا یا اٹھا کے لایا گیا؟ برانڈ ایمبسیڈر کسی بھی ادارے، محکمے کا ہو، اسکے عمدہ تصور اور تصویر کو اجاگر کرتا ہے۔ اس ادارے کا برانڈ ہوتا ہے۔ پولیس کو ایسے برانڈ کی اور شاداب کو ایسی جاب کی ضرورت تھی۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ گویا ایک اچھا خاصا مرد پولیس کی ضرورت کی ماں بن گیا یا بن گئی۔ شاداب صاحب آج کل لامصروف تھے، لا مصرف نہیں۔ یعنی فارغ اور ’’ویہلے‘‘ تھے۔ ایسے نہ ہوتے تو ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا میں ہوتے یا وہاب ریاض کی طرح قومی یا کسی صوبائی حکومت میں مشیر ہوتے۔ مشیر کا میرٹ شاید 6 گیندوں پر چھ چھکے ہے۔ شاداب آل را?نڈر ہیں۔ مشیر بننے کے بعد کسی بھی وقت چھ چھکے لگا سکتے ہیں، کھا بھی سکتے ہیں۔ چھکے کھانا کسی بھی کھلاڑی کے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کا کھیل ہے۔ پولیس میں آج خوبصورت لوگ زیادہ مقدار اور تعداد میں ہیں۔ ویسے خوبصورتی کردار کی ہوتی ہے۔ باکردار افسر اور اہلکار پولیس میں موجود ہیں۔ کالی بھیڑیں نہ ہوں تو سفید کی قدر نہیں ہوتی۔ سفید بھیڑوں میں ایک کالی ہو تو کالی کالی لگتی ہے۔ پولیس کی کبھی وردی بھی کالی تھی۔ کسی نے کہہ دیا اندر باہر سے ایک ہی رنگ ہے تو وردی کا رنگ بدل دیا گیا۔ شاداب کو آئی جی اور ڈی آئی جی نے وہی نئی والی پہنوا کر رینک لگائے۔ یہ رینک لگوانے والے کے لیے فخر ہے یا رینک لگانے والوں کے لئے؟
شاداب خان ڈی ایس پی بن گئے۔فل اختیارات والے اعلیٰ افسر۔ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سِیٹی لے کر چوک میں کھڑے ہو جائیں، ڈبل سواری پر چالان کر دیں، کھوکھے سے بوتل اٹھا کر پی لیں، ریڑھی والے کی جیب سے سگریٹ نکال لیں۔
ادھر ایک خبر نظر سے گزری، اداکارہ مومنہ اقبال تھانے پہنچ گئیں، کس جرم میں؟ فوراً ذہن میں آیا۔ خبر میں خبر دی گئی تھی کہ ان کو تھانہ مستی بہت خوبصورت لگا۔تھانے کا نام مستی گیٹ کے بجائے خرمستی گیٹ ہوتا تو بھی فرق نہ پڑتا۔ اس کی لش پش دیکھی تو اچانک تھانے کے اندر چلی گئیں، وہاں اچانک آئی ہوئی اے ایس پی شاذیہ اسحٰق نے ان کا استقبال کیا۔ وہ تو آئی جی صاحب ادھر موجود نہیں تھے ورنہ تو اچانک پہنچ کر ان کو بھی کرائون لگا کر پلسیے کی طرح پلسیئی بنا دیتے۔ ویسے یہ ماننے والی بات نہیں کہ اداکارہ محض تھانے کا ظاہری جلوہ،حسن و جگمگاہٹ دیکھ کر اس کی سیر کو چلی گئیں۔ ضرور کسی نے بتایا ہو گا کہ قید میں دیسی مرغی، انڈے بریڈ مکھن بادام اور صحت بنانے کے لیے ایکسرسائز کا سامان ملتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
تجاوزات مافیا کے خلاف لاہور میں اپریشن پہلے روز دو سو بیاسی افراد گرفتار، چھ ٹرک سامان ضبط کر لیاگیا۔
لاہور انتظامیہ نے وزیر اعلیٰ کے حکم کا حق ادا کر دیا۔ لاہور کو اس مافیا نے سکیڑ کر رکھ دیا تھا۔ ریڑھیاں لگا کر تھڑے بنا کر شاہراہوں کو شاراعیں بنا دیا تھا۔ تھڑے گھروں کے سامنے بنائیں۔ ریڑھیاں کسی گراؤنڈ میں یا قبرستان میں جا کر لگائیں۔انتظامیہ کی طرف سے بلا امتیاز اپریشن کیا گیا۔ کوئی سفارش مانی گئی نہ دباؤ قبول کیا گیا۔کسی کی ہینکا پھینکی کو خاطر میں لا ئے نہ کسی کی آہ و بکا پر کان دھرے۔ نسلا ٹاور جیسے جتنے غیر قانونی پلازے تھے گرا دیئے اور ان کا ملبہ چھ ٹرکوں پر لاد کر لے گئے۔گویا کوزے میں دریا بند کردیا۔ جس کا دو تین ہزارکا کھوکھا تھا اس میں دس12 ہزار کا سامان ہوگا۔ وہ دوسرے دن کھوکھا بنا لے گا۔ اس بہانے نیا اور نواں نکور کھوکھا اسے مل جائے گا۔ سامان بھی اس میں ڈل جائے گا۔ مدت سے ریڑھی کھوکھا لگا رہا تھا بڑی کمائی کی۔ دو چار سو ہزار 12سو کی دہاڑی لگتی ہوگی۔ گھر کی روٹی روزی چلتی ہوگی۔ کل یہ دو چار سو یا ہزار 1500 گھر میں نہیں گئے تو کیا ہوا، لاہور ہے داتا کی نگری ہے، دربار جائیں اپنی کھاآئیں،گھر والوں کی لے آئیں۔اللہ اللہ خیر سلا، کل دیکھیں کتنے پلازے گرتے ہیں اور کتنے شاپروں میں ڈال کرملبہ کوڑا دان برد ہوتاہے۔ تجاوزات کے خلاف کیا یہ پہلا اورآخری اپریشن ہے؟
٭٭٭٭٭
کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کسانوں کے مظاہرے۔
کچھ لوگوں کی دولت کی ہوس ختم تو کیا ہونی، بڑھتی ہی جاتی ہے۔پیسہ بنے جیسے تیسے بنے خواہ کسی کی میت اور تربت سے بنے،دودھ میں ملاوٹ سے بنے یا کفن چوری سے بنے۔ پاکستان میں کسان زمیندار کاشتکار معیشت کو نامساعد حالات کے باوجود گرنے نہیں دیتے۔اگر برے اور بدترین طریقے سے کسی طبقے کا استحصال ہوتا ہے تو وہ یہی زراعت سے تعلق رکھنے والا طبقہ ہے۔ ایک کاشت کار کے گھر سے دس گھر چلتے اور پلتے ہیں ہنر مند موچی، نائی، دائی، لوہار ترکھان مولوی اور بھی کئی۔ کسان کا استحصال کیسے کیسے ہوتا ہے۔ ادویات جعلی ،پانی کی قلت، بیج کھاد مہنگے اور ان کی قلت بھی۔ قلت ہوتی نہیں کی جاتی ہے۔ آج کل پھرناجائزمنافع خور مافیاز مسل دکھاتے مونچھوں کو تاؤ دیتے میدان خرافات میں اترے ہوئے ہیں۔ آڑھتی کھڑی فصل کا سودا کر کے ایڈوانس دے دیتے ہیں۔ جس جنس کا ریٹ بالفرض چار ہزار روپے مقرر کیا جاتا ہے وہ ساڑھے تین ہزار میں خرید لیتا ہے۔ کھاد آج کل بلیک ہو رہی ہے۔ شہروں میں قصبوں میں کہا جا رہا ہے قلت ہو گئی شارٹ ہو گئی۔ یوریا اور ڈی اے پی شارٹ نہیں ہوئی گوداموں میں رکھ کر جندرے ٹھوک دیے گئے ہیں۔ بڑے ڈیلر توند پر ہاتھ پھیر کر ڈکار مارتے پھوڑی نما چوکی پر بیٹھ کر اونگھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے نوٹوں کی مشین چل رہی ہوتی ہے گو داموں کی کنجیاں چھوٹے ڈیلروں کے پاس رکھوا دی جاتی ہیں۔ جو فی بوری منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں آج کل گندم اور کِنّو کے باغات کے لیے کھاد کی اشد ضرورت ہے جو بلیک میں دستیاب ہے۔ کسان احتجاج کر رہے ہیں مگر ڈیلروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ڈی سی صاحبان ان کے کان نہ صرف کھینچیں بلکہ کانوں کے اندر کن کھجورے چھوڑ کر ٹیپ سے بند کر دیں،ناک پرکِرلی بھی بٹھائی جاسکتی ہے۔ دیکھیں پھر کیسے راہ راست پر آتے ہیں۔
جمعۃ المبارک‘ 8 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 22 دسمبر 2023ء
Dec 22, 2023