اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) نگران وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ بلوچ مارچ میں شریک تمام خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا گیا ہے، صرف وہ لوگ تحویل میں ہیں جن کی شناخت نہیں ہوئی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کے بعد وفاقی وزراء نے نیوز کانفرنس کی۔ مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ مظاہرین سے مذاکرات کیلئے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ حکومت کی طرف سے فواد حسن فواد نے بات چیت کی۔ فوری طور پر مظاہرین کی رہائی کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ مظاہرین کو دھرنے کیلئے ایچ نائن اور پھر ایف نائن پارک کی تجویز دی گئی تھی۔ گزشتہ 23 روز سے کچھ مظاہرین اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھے تھے۔ کچھ مقامی افراد نے چہرے ڈھانپ کر صورت حال کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان سے آئے مظاہرین مکمل پر امن رہے۔ چند افراد نے مسائل پیدا کیے جن کی شناخت ہوگئی ہے اور ان کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔ خفیہ معلومات تھیں کہ کسی مین شاہراہ پر لوگ اکٹھے رہے تو کوئی سانحہ ہوسکتا ہے۔ پتھراؤ بلوچستان کے مظاہرین نے نہیں کیا، مقامی لوگوں نے پتھراؤ کیا۔ 23 دنوں سے جاری پرامن احتجاج پر اسلام آباد پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ وفاقی وزیر برائے نجکاری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق رپورٹ آج عدالت پیش کی جائے گی۔ ایف آئی آر میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اگر ان مظاہرین کو نہ روکا جاتا تو شاید اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے۔ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود تھے۔ کچھ لوگ صورتحال کو کسی اور طرف لے جانا چاہتے تھے۔ بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ریاست کو مجبوراً کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ جن مظاہرین سے ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں بتایا کہ ہم پرامن تھے، ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ صورتحال خراب ہو۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین سے ملاقات کے بعد آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر سے رپورٹ لی گئی۔ یہ معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لایا گیا ہے۔ اسی دوران وزیراعظم سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی رابطہ کیا اور اس مسئلہ کو فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے مظاہرین سے مذاکرات کئے، گرفتار تمام خواتین اور جن افراد کی شناخت ہو گئی تھی، انہیں فوری طور پر رہا کر دیا گیا، صرف وہ لوگ تحویل میں ہیں جن کی شناخت نہیں ہوئی۔ ان افراد کی تعداد بہت کم ہے، 90 فیصد سے زیادہ گرفتار مرد رہا ہو چکے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کے معاملات سب کے علم میں ہیں، سکیورٹی خدشات کے پیش نظر مظاہرین کو ایف نائن پارک یا ایچ نائن گرائونڈ میں جانے کا کہا جا رہا تھا، حکومت کے اس عمل سے یہ پروپیگنڈا زائل ہو گیا ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت نہیں۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور صوبہ، ہر ایک کا اسلام آباد آنے کا حق ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جہاں تک الیکشن کی بات ہے تو چیلنجز ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات کے وقت بھی چیلنجز موجود تھے۔ ریاست چیلنجز اور مشکلات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کی گرفتاریوں کے خلاف کیس میں انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے پر امن بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔ پرامن احتجاجی مظاہرین پر واٹر کینن، لاٹھی چارج کا استعمال کیا گیا۔ آئی جی اسلام آباد پیش ہوئے تو عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی بندے پکڑے ہیں؟، جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ کل دو جگہوں پر واقعہ پیش آیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے کوئی دہشت گردی تو نہیں کی، اکھاڑ بچھاڑ تو نہیں کی، وہ پاکستانی شہری ہیں احتجاج تو ان کا حق ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ کوئی بچہ یا خاتون ہماری حراست میں نہیں، ایک خاتون کو متعلقہ عدالت نے رہا کر دیا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی کی عدالت نے گرفتار بلوچ ہیومن ایکٹویسٹ مہارنگ بلوچ سمیت 33 بلوچ مظاہرین میں سے 8 کو جوڈیشل کرنے، 25افراد کی شناخت پریڈ کی اجازت کیلئے پولیس استدعا مسترد کرتے ہوئے تمام گرفتار مظاہرین کو پانچ پانچ ہزار روپے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیدیا۔